اس ریاست کا پانچواں اہم قاعدہ یہ تھا کہ سربراہ ِریاست مسلمانوں کے مشورے اور ان کے رضامندی سے مقرر ہونا چاہیے ، اور اسے حکومت کا نظام بھی مشورے سے چلانا چاہیے ۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿الشوری:٣٨﴾ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ﴿آل عمران :١٥٩﴾ اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس کے متعلق نہ قرآن میں کوئی حکم ہواور نہ آپ سے ہم نے کچھ سناہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا : شاوروا فیہ الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ برای خاصۃ ۔[20] "”اس معاملے میں دین کی سمجھ رکھنے والے اور عابد لوگوں سے مشورہ کرو اور کسی خاص شخص کی رائے پر فیصلہ نہ کرڈالو۔”” حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : من دعا الی امارۃ نفسہ او غیرہ من غیر مشورۃ من المسلمین فلا یحل لکم ان لا تقتلوہ۔[21] "”جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر اپنی یا کسی اور شخص کی امارت کے لئے دعوت دے تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ اسے قتل نہ کرو ۔”” ایک اور روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل ہوا ہے : لا خلافۃ الا عن مشورۃ ۔[22] "”بغیر مشورے کے بغیر کوئی خلافت نہیں "”۔