سوال : کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔بِنائے فتویٰ یہ ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قیامت کے روز اُمت کے بارے میں شفاعت کے منکر ہیں۔ اس کا حوالہ ترجمان القرآن، جنوری، فروری1945ء صفحہ30سے لیتے ہوئے آیت’’جنگ کرو اہل کتاب میں ان لوگوں کے خلاف جو اﷲ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘کے تشریحی نوٹ کا دیا ہے۔یہ نوٹ یوں ہے:’’وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ اورکسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا۔‘‘ اسی طرح تفہیمات سے بھی کوئی حوالہ اسی قسم کا اخذ کیاہے۔
جواب: خدا ان لوگوں کو نیک ہدایت دے جو دوسروں کی طرف غلط باتیں منسوب کرکے دنیا میں پھیلاتے ہیںاور ان کے اقوال کو ایسے معنی پہناتے ہیں جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ اگر الزام لگانے والے بزرگ کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہوتا تو وہ اشتہار کی اشاعت سے پہلے مجھ سے لکھ کر پوچھ سکتے تھے کہ تیری ان عبارات کا منشا کیا ہے، اور شفاعت کے بارے میں تیرا عقیدہ کیا ہے۔میری جن عبارتوں کا انھوں نے حوالہ دیا ہے،ان میں سے ایک یہود ونصاریٰ کے غلط عقیدۂ شفاعت کی تردید میں ہے، اور اس کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ اس غلط عقیدے کی وجہ سے کس طرح اہل کتاب کا ایمان بالیوم الآخر باطل ہوگیا ہے جس کی بنا پر قرآن میں ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے۔ دوسری عبارت میں ان تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جو نبیﷺ نے اپنی دعوت رسالت کے آغاز میں مشرکین مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی تھیں۔دونوں میں سے کسی مقام پر بھی اسلام کے عقیدۂ شفاعت کو بیان کرنے کا موقع نہ تھا۔آخر کافروں اور مشرکوں کے سلسلے میں اس شفاعت کا ذکر کیوں کیا جاتا جس کے مستحق صرف اہل ایمان ہیں؟کافروں اور مشرکوں کے معاملے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ وہی کچھ ہے جو قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿ وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ﴾ (البقرہ 48:2) (اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی،نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی)
(ترجمان القرآن ، نومبر1950ء)