سوال-ایک عالمِ دین اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’شرک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ علما اور صلحا کو امام اور ہادی مان کر ان کے اقوال کو اﷲ کے قول کی طرح بلا سند تسلیم کیا جائے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ’’ ائمۂ سلف اور بزرگانِ دین کے علوم اور حالات سے علمی اور تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کے کسی قول کو بلا قرآنی سند کے دین ماننا شرک ہے۔‘‘ لیکن ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’کتاب اﷲ کو چھوڑ کر بزرگوں کی پیروی کرنا گمراہی ہے۔‘‘آگے چل کر پھر فرماتے ہیں کہ’’رسول اور امیر کی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت کاحکم قرآن میں نہیں ہے بلکہ ممانعت ہے۔‘‘آخر میں ایک مقام پر ان کا ارشاد ہے: ’’بلکہ عام طور پر انسانوں کی اطاعت کو قرآن خطرناک قرار دیتا ہے۔‘‘مصنف کی یہ باتیں کہاں تک درست ہیں ؟
جواب-ان اقوال میں صحیح اور غلط دونوں طرح کی باتیں ملی جلی ہیں ۔ فی الجملہ صاحب موصوف نے حق بات کہنے کے ساتھ ایک طرح کے بے جا تشدّد سے کام لیا ہے۔مسلمانوں میں جاہل پیروں اور علماے سُوء کی اندھی تقلید اور جاہلانہ اطاعت کے جو آثار نظر آتے ہیں ،ان پرجتنا بھی اظہار غضب کیا جائے، جائز اور بجا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مؤلف نے اصلاح کے جوش میں علماے حق اور صلحاے اُمت اور ائمۂ ہداۃ کی اطاعت اورپیروی کو بھی گمراہی قرار دے دیا ہے،اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کو شرک تک کہہ دیا۔ حالاں کہ اگر وہ انھی آیاتِ قرآنی پر غور فرماتے جن کو انھوں نے استدلال میں پیش کیا ہے تو انھیں خود احساس ہوجاتا کہ وہ حق سے بہت کچھ تجاوز کرگئے ہیں ۔ شرک جس چیز کا نام ہے وہ تو بغیر اس کے متحقق نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص خدا کے سواکسی دوسرے کو حقیقی معنوں میں حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار قرار دے یا خدا کے امر ونہی کے مقابلے میں یا اس کے برابر کسی اورکے امرو نہی کو واجب الاطاعت سمجھے۔ لیکن یہ مخفی نہیں ہے،اور غالباً جنابِ مؤلف خود بھی جانتے ہوں گے کہ کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔لہٰذا اس معاملے میں شرک کا حکم لگا دینا زیادتی ہے۔ جو شخص کسی بزرگ کے متعلق یہ سمجھتا ہو کہ وہ راہ راست پر ہیں اور خد اکی شریعت اور اس کے احکام کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بہتر جانتے ہیں اوراس بِنا پر وہ ان کی پیروی یہ سمجھتے ہوئے کرتا ہو کہ ان کی پیروی رضاے الٰہی کی پیروی ہے، ایسے شخص کو آخر شرک کا الزام کیسے دیا جاسکتا ہے۔
رہ گیا یہ سوال کہ کس کا اتباع کرنا جائز ہے،اورکس کا اتباع گمراہی ہے، توقرآن مجید صاف کہتا ہے کہ:
وَلَا تُطِـــعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ )الاحزاب:۱ (
’’اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو۔‘‘
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ( الکھف :۲۸)
’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔‘‘
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّ بِيْنَ (القلم :۸)
’’لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دبائو میں ہرگز نہ آئو۔‘‘
وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا (الدھر:۲۴)
’’اور ان میں سے کسی بدعمل اور یا منکر حق کی بات نہ مانو۔‘‘
یعنی کافروں اور منافقوں کی،خدا کو بھول جانے والوں اور ہواے نفس کی پیروی کرنے والوں کی، افراط پسندوں اور حق کو جھٹلانے والوں اور گناہ گار ناشکروں کی پیروی نہ کرو۔ یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ صالحین اور اہلِ علم کی پیروی نہ کرو۔ بلکہ قرآن تو کہتا ہے کہ:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل:۴۳)
’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔‘‘
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰ ىہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام:۹۰)
’’اے نبیؐ، وہی لوگ اللّٰہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انھی کے راستے پر تم چلو۔‘‘
یعنی اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھو اور جن کو اﷲ نے ہدایت دی ہے ان کے راستے کی پیروی کرو۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جاچکا ہے،مؤلف نے صحیح اور غلط کو خلط ملط کردیا ہے۔ وہ افراط وتفریط میں پڑ گئے ہیں ۔علما اور صلحاے کرام کو ہادی ماننا کوئی گناہ نہیں ہے،بلکہ غیر عالم اور غیر صالح کولازم ہے کہ ان کی بات مانے اور ان کے پیچھے چلے۔البتہ ان کے قول کو اﷲ کے قول کی طرح سمجھنا ضرور گناہ ہے۔اسی طرح یہ درست ہے کہ کتاب اﷲ کو چھوڑ کربزرگوں کی پیروی کرنا گمراہی ہے۔ لیکن جو شخص یہ سمجھ کر بزرگوں کی پیروی کرے کہ وہ خود کتاب اﷲ کا علم نہیں رکھتا اور بزرگانِ سلف نے جوطریقے اختیار کیے ہیں ، وہ کتاب اﷲ کے مطابق ہیں ،وہ ہرگز کسی جرم یا گناہ کا مرتکب نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ آپ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ صرف اس قدر ہے کہ اس نے پیروی کے لیے جن بزرگوں کو چن لیا ہے،ان کا انتخاب درست نہیں ہے۔
آپ تقلیدِ جامد اوراندھی پیروی کی جتنی چاہیں برائی کرسکتے ہیں ۔سب بجا اور درست۔ آپ یہ کہنے کا حق بھی رکھتے ہیں کہ ولایت، امامت،اجتہاد اور علم وفضیلت بزرگوں پر ختم نہیں ہوگئیں ۔ آج بھی یہ سب مرتبے حاصل ہوسکتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن تقلید کی مخالفت اور اجتہاد کا شوق اگر اس حد تک پہنچ جائے کہ بزرگانِ سلف کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہوجائے،اور ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کو خواہ مخواہ ڈھا دینا ہی ضروری سمجھ لیا جائے،اورمحض نئی بات پیدا کرنے کی خاطر جدت طرازیاں کی جائیں ، او رلوگ اہلیت کے بغیر اجتہاد شروع کردیں اور کتاب اﷲ وسنت رسول اللّٰہ کو بازیچۂ اطفال بنالیں ، تو حق یہ ہے کہ یہ گمراہی اندھی تقلید کی گمراہی سے بدرجہا زیادہ سخت اور دین کے حق میں بدرجہا زیادہ نقصان دہ ہے۔ مقلدین تو صرف اتنا ہی کرتے ہیں کہ جو دیواریں ان کے اسلاف اُٹھا گئے ہیں ،ان پر زمانے کی ضروریات کے مطابق کسی مزید تعمیر کا اضافہ نہیں کرتے۔ لیکن وہ پچھلی عمارت کو جوں کا توں قائم تورکھتے ہیں ۔ بخلاف اس کے یہ جدت پسند حضرات پچھلی دیواروں کو بھی ڈھا دیتے ہیں اور خود اپنے من مانے طرز پر نئی عمارت بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ ذہنیت اگرفروغ پا جائے تو اندیشہ ہے کہ پورا دین ہی مسخ ہوجائے گا اور نہ معلوم اس کی شکل کیا سے کیا بنا کر رکھ دی جائے گی۔
(ترجمان القرآن ،اگست۱۹۳۴ء)