یہ اندازِ بحث محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ پیرا گراف ۲۱ سے جو بحث شروع ہوتی ہے اس کو پڑھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فاضل جج کی سوچی سمجھی رائے کا نتیجہ ہے۔ یہ چوں کہ ان کے فیصلے کا اہم ترین حصہ ہے، اس لیے ہم اس کے ایک ایک نکتے کو نمبروار نقل کرکے ساتھ ساتھ اس پر تنقید کرتے چلے جائیں گے تاکہ ہر نکتے کی بحث صاف ہوتی چلی جائے۔
سُنّت کے بارے میں امت کا رویہ
وہ فرماتے ہیں کہ:
قرآن کے علاوہ حدیث یا سُنّت کو بھی مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اِسلامی قانون کا ایک اتنا ہی اہم مآخذ سمجھ لیا ہے۔ (پیرا گراف:۲۱)
کوئی شخص جس نے اِسلامی قانون اور اس کی تاریخ کا کچھ مطالعہ کیا ہو یہ ہرگز تسلیم نہیں کر سکتا کہ اس فقرے میں صحیح صورت واقعہ بیان کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ عہد رسالت سے لے کر آج تک پوری امت، تمام دُنیائے اِسلام میں سُنّت رسولﷺ کو قرآن کے بعد قانونًا بنیادی ماخذ، اور حدیث کو سُنّت کے معلوم کرنے کا ذریعہ مانتی چلی آ رہی ہے اور آج بھی مان رہی ہے۔ جیسا کہ ہم اس کتاب کے مقدمے میں بیان کرچکے ہیں، تاریخ اِسلام میں پہلی مرتبہ ایک مختصر سا گروہ دوسری صدی ہجری میں ظاہر ہوا تھا، جس نے اس کا انکار کیا تھا، اور اس کی تعداد مسلمانوں میں بڑے مبالغے کے ساتھ بھی بیان کی جائے تو دس ہزار میں ایک سے زیادہ نہ تھی۔ تیسری صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے یہ گروہ ناپید ہو گیا، کیوں کہ سُنّت کے ماخذ قانون ہونے کے حق میں ایسے مضبوط علمی دلائل وشواہد موجودتھے کہ اس گمراہانہ خیال کا زیادہ دیر تک ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ پھر ۹ صدیوں تک دُنیائے اِسلام اس طرح کے کسی گروہ کے وجود سے بالکل خالی رہی، حتّٰی کہ اِسلامی تاریخ میں کسی ایک شخص کا ذکر بھی نہیں ملتا جس نے یہ خیال ظاہر کیا ہو۔ اب اس طرزِ خیال کے لوگ از سر نو پچھلی صدی سے ظاہر ہونے شروع ہوئے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے کہ ایسے افراد کے پَیرودنیائے اِسلام میں کتنے ہیں، تو ان کا اوسط ایک لاکھ میں ایک سے زیادہ نہ نکلے گا۔ کیا اس امرِ واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرنا کہ ’’مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے سُنّت کو ماخذ قانون سمجھ لیا ہے‘‘ حقیقت کی صحیح ترجمانی ہے؟ اس کے بجائے یہ کہنا صحیح تر ہو گا کہ ’’مسلمانوں کی ایک بالکل ناقابل لحاظ تعداد سُنّت کے مآخذ ہونے سے انکار کرنے لگی ہے۔‘‘
فاضل جج کے نزدیک دین میں نبی کی حیثیت
اس کے بعد فاضل جج نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ دین میں نبی کی حیثیت کیا ہے۔ اس سوال پر بحث کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
اِسلامی قانون کا مآخذ ہونے کی حیثیت سے حدیث کی قدروقیمت کیا ہے، اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اِسلامی دُنیا میں رسول پاکﷺ کا مرتبہ ومقام کیا ہے۔ میں اس فیصلے کے ابتدائی حصے میں یہ بتا چکا ہوں کہ اِسلام ایک خدائی دین ہے۔ یہ اپنی سند خدا سے، اور صرف خدا ہی سے لیتا ہے۔ اگر یہ اِسلام کا صحیح تصور ہے تو اس سے لازمًا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے اقوال وافعال اور کردار کو خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کی سی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ ان سے یہ معلوم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے کہ مخصوص حالات میں قرآن کی تعبیر کس طرح کی گئی تھی، یا ایک خاص معاملے میں قرآن کے عام اصولوں کو واقعات پر کس طرح منطبق کیا گیا تھا۔ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللّٰہﷺ ایک کامل انسان تھے، نہ کوئی شخص یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ جس عزت اور تکریم کے مستحق ہیں، یا جس عزت وتکریم کا ہم ان کے لیے اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس کے اظہار کی قوت وقابلیت وہ رکھتا ہے۔ لیکن باایں ہمہ وہ خدا نہ تھے، نہ خدا سمجھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے تمام رسولوںعلیہم السلام کی طرح وہ بھی انسان ہی ہیں۔ (پیرا گراف ۲۱)
وہ ہماری طرح فانی تھے… وہ ایک نذیر تھے، مگر یقینا خدا نہ تھے… ان کو بھی اسی طرح خدا کے احکام کی پیروی کرنی پڑتی تھی جس طرح ہمیں، بلکہ شاید قرآن کی رو سے ان کی ذمہ داریاں اورمسئولیتیں ہماری بہ نسبت بہت زیادہ تھیں۔ وہ مسلمانوں کو اس سے زیادہ کوئی چیز نہ دے سکتے تھے جو خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان کو دی گئی تھی۔‘‘ (پیرا گراف ۲۱)
ان باتوں کے حق میں قرآن مجید کی چند آیات کے استدلال کرنے کے بعد وہ پھر فرماتے ہیں:
محمد رسول اللّٰہﷺ اگرچہ بڑے عالی مرتبہ انسان تھے، مگر ان کو خدا کے بعد دوسرا درجہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ انسان ہونے کی حیثیت سے، ماسوا اس وحی کے جو ان کے پاس خدا کی طرف سے آئی تھی، وہ خود اپنے بھی کچھ خیالات رکھتے تھے اور اپنے ان خیالات کے زیر اثر وہ کام کرتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللّٰہ ﷺنے کوئی گناہ نہیں کیامگر وہ غلطیاں تو کر سکتے تھے اور یہ حقیقت خود قرآن میں تسلیم کی گئی ہے، لِّيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ َ…‘‘ الفتح 2:48
ایک سے زیادہ مقامات پر قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ دُنیا کے لیے ایک بہت اچھا نمونہ ہیں، مگر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک آدمی کو ویسا ہی ایمان دار، ویسا ہی راست باز، ویسا ہی سرگرم اور ویسا ہی دین دار اور متقی ہونا چاہیے جیسے وہ تھے، نہ یہ کہ ہم بھی بعینہٖ اسی طرح سوچیں اور عمل کریں، جس طرح و ہ سوچتے اور عمل کرتے تھے، کیوں کہ یہ توغیر فطری بات ہو گی اور ایسا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے اور اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں تو زندگی بالکل ہی مشکل ہو جائے گی۔ (پیراگراف:۲۲)
یہ بھی صحیح ہے کہ قرآن پاک اس کی تاکید کرتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہ ﷺکی اطاعت کی جائے، مگر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جہاں انھوں نے ہم کو ایک خاص کام ایک خاص طرح کرنے کا حکم دیا ہے، ہم وہ کام اسی طرح کریں۔ اطاعت تو ایک حکم ہی کی ہو سکتی ہے۔ جہاں کوئی حکم نہ ہو وہاں نہ اطاعت ہو سکتی ہے، نہ عدم اطاعت۔ قرآن کے ان ارشادات سے یہ مطلب اخذ کرنا بہت مشکل ہے کہ ہم ٹھیک وہی کچھ کریں جو رسولﷺ نے کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک فرد واحد کے زمانۂ حیات کا تجربہ واقعات کی ایک محدود تعداد سے زیادہ کے لیے نظائر فراہم نہیں کر سکتا، اگرچہ وہ فرد واحد نبی ہی کیوں نہ ہو، اور یہ بات پورے زور کے ساتھ کہی جانی چاہیے کہ اِسلام نے نبی کو کبھی خدا نہیں سمجھا ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ قرآن اور حدیث میں جوہری اور حقیقی فرق ہے۔ (پیرا گراف:۲۳)