پیرا گراف ۳۰ میں فاضل جج دو اور دلیلیں پیش فرماتے ہیں۔ اول یہ کہ رافع بن خدیجؓ والی روایت میں (جس کا حوالہ انھوں نے دیا ہے) حضورﷺ نے خود یہ فرمایا ہے کہ جو معاملات دین سے تعلق نہیں رکھتے، ان میں آپ کی بات کو حرف آخر نہ سمجھ لیا جائے۔ دوم یہ کہ حضورﷺ نے خود اس پر زور دیا ہے (اور یہاں کوئی حوالہ انھوں نے نہیں دیا) کہ صرف قرآن ہی وہ ایک کتاب ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی راہ نُما ہونی چاہیے۔
ان میں سے پہلی دلیل خود اس حدیث ہی سے ٹوٹ جاتی ہے جس کا حوالہ انھوں نے دیا ہے۔ اس میں واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضورﷺ نے اہل مدینہ کو کھجوروں کی باغبانی کے معاملے میں ایک مشورہ دیا تھا جس پر عمل کیا گیا تو پیداوار کم ہو گئی۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ’’میں جب تمھارے دین کے معاملے میں تمھیں کوئی حکم دوں تو اس کی پیروی کرو اور جب اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میں بس ایک بشر ہی ہوں۔‘‘ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن معاملات کو دین اِسلام نے اپنے دائرۂ راہ نُمائی میں لیا ہے ان میں تو حضورﷺ کے ارشاد گرامی کی پیروی لازم ہے، البتہ جن معاملات کو دین نے اپنے دائرے میں نہیں لیا ہے ان میں آپ کی رائے واجب الاتباع نہیں ہے۔ اب ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ دین نے کن معاملات کو اپنے دائرے میں لیا ہے اور کن کو نہیں لیا۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو باغبانی، یا درزی کا کام یا باورچی کا کام سکھانا دین نے اپنے ذمے نہیں لیا ہے، لیکن خود قرآن ہی اس بات پر شاہد ہے کہ دیوانی اور فوجداری قوانین، عائلی قوانین، معاشی قوانین اور اسی طرح اجتماعی زندگی کے تمام معاملات کے متعلق احکام وقوانین بیان کرنے کو دین اِسلام نے اپنے دائرۂ عمل میں لیا ہے۔ ان امور کے متعلق نبی ﷺ کی ہدایات کو ردکر دینے کے لیے مذکورۂ بالا حدیث کو دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
رہی دوسری دلیل، تو براہِ کرم ہمیں بتایا جائے کہ حضورﷺ کی کس حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ مسلمانوں کو راہ نُمائی کے لیے صرف قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ حضورﷺ نے اس کے برعکس یہ فرمایا ہے کہ:
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ۔(موطا)
مَیں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رہوگے، ہرگز گم راہ نہ ہو گے۔ ایک: خدا کی کتاب، دوسرے: اس کے رسولؐ کی سُنّت۔