آپ کا تیسرا سوال یہ ہے:
وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے لی ہوئی ہے؟
اس سوال کے دو حصے الگ الگ ہیں۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’وحی کا یہ دوسرا حصہ کہاں ہے؟‘‘ بعینہٖ یہ سوال آپ پہلے مجھ سے کر چکے ہیں اور میں اس کا مفصل جواب دے چکا ہوں، مگر آپ اسے پھر اس طرح دوہرا رہے ہیں کہ گویا آپ کو سرے سے کوئی جواب ملا ہی نہیں۔ براہِ کرم اپنا اولین خط اُٹھا کر دیکھیے جس میں سوال نمبر ۲ کا مضمون وہی تھا جو آپ کے اس تازہ سوال کا ہے۔ اس کے بعد میرا دوسرا خط ملاحظہ فرمائیے جس میں، میں نے آپ کو اس کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔({ FR 6819 }) اب آپ کا اسی سوال کو پھر پیش کرنا اور میرے پہلے جواب کو بالکل نظر انداز کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو آپ اپنے ہی خیالات میں گم رہتے ہیں اور دوسرے کی کوئی بات آپ کے ذہن تک پہنچنے کا راستہ ہی نہیں پاتی، یا پھر آپ یہ بحث محض برائے بحث فرما رہے ہیں۔
کیا سُنّت کی حفاظت بھی خدا نے کی ہے؟
رہاآپ کے سوال کا دوسرا حصہ تو اس کا جواب سننے سے پہلے ذرا اس بات پر غور کر لیجیے کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری جو اللّٰہ تعالیٰ نے لی تھی، اس کو انھوں نے براہ راست عملی جامہ پہنایا، یا انسانوں کے ذریعے سے اس کو عملی جامہ پہنوایا؟ ظاہر ہے آپ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ اس حفاظت کے لیے انسان ہی ذریعے بنائے گئے اور عملًا یہ حفاظت اس طرح ہوئی کہ حضور ﷺ سے جو قرآن لوگوں کو ملا تھا اس کو اسی زمانے میں ہزاروں آدمیوں نے لفظ بلفظ یاد کر لیا، پھر ہزاروں سے لاکھوں، اور لاکھوں سے کروڑوں اس کو نسلًا بعد نسلٍ لیتے اور یاد کرتے چلے گئے، حتّٰی کہ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں رہا کہ قرآن کا کوئی لفظ دُنیا سے محو ہو جائے، یا اس میں کسی وقت کوئی ردوبدل ہو اور وہ فورًا نوٹس میں نہ آ جائے۔ یہ حفاظت کا غیر معمولی انتظام آج تک دُنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہو سکا اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ ہی کا کیا ہوا انتظام ہے۔
اچھا، اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس رسولﷺ کو ہمیشہ کے لیے اور تمام دُنیا کے لیے رسول بنایا گیا تھا اور جس کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا، اس کے کارنامۂ حیات کو بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسا محفوظ فرمایا کہ آج تک تاریخ انسانی میں گزرے ہوئے کسی نبی، کسی پیشوا، کسی لیڈر اور راہ نُما اور کسی بادشاہ یا فاتح کا کارنامہ اس طرح محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ حفاظت بھی انھی ذرائع سے ہوئی ہے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت ہوئی ہے، ختم نبوت کا اعلان بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کیے ہوئے آخری رسولﷺ کی راہ نُمائی اور اس کے نقوشِ قدم کو قیامت تک زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے لی ہے تاکہ اس کی زندگی ہمیشہ انسان کی راہ نُمائی کرتی رہے اور اس کے بعد کسی نئے رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فی الواقع جریدۂ عالم پر ان نقوش کو کیسا ثبت کیا ہے کہ آج کوئی طاقت انھیں مٹا نہیں سکتی۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ وضو، یہ پنج وقتہ نماز، یہ اذان، یہ مساجد کی نماز باجماعت، یہ عیدین کی نمازیں، یہ حج کے مناسک، یہ بقر عید کی قربانی، یہ زکوٰۃ کی شرحیں،یہ ختنہ، یہ نکاح وطلاق ووراثت کے قاعدے، یہ حرام وحلال کے ضابطے اور اِسلامی تہذیب وتمدن کے دوسرے بہت سے اصول اور طور طریقے جس روز نبی ﷺ نے شروع کیے اسی روز سے وہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہو گئے جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھ گئیں، اور پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں مسلمان دُنیا کے ہر گوشے میں نسلًا بعد نسلٍ ان کی اسی طرح پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں جس طرح ان کی ایک نسل سے دوسری نسلٍ قرآن لیتی چلی آ رہی ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ رسول پاکﷺ کی جن سنتوں پر قائم ہے، ان کے صحیح ہونے کا ثبوت بعینہٖ وہی ہے جو قرآن پاک کے محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کو جو شخص چیلنج کرتا ہے وہ دراصل قرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اِسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے۔
پھر دیکھیے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی زندگی اور آپ کے عہد کی سوسائٹی کا کیسا مفصل نقشہ، کیسی جزئی تفصیلات کے ساتھ، کیسے مستند ریکارڈ کی صورت میں آج ہم کو مل رہا ہے۔ ایک ایک واقعہ اور ایک ایک قول وفعل کی سند موجود ہے، جس کو جانچ کر ہر وقت معلوم کیا جا سکتا ہے کہ روایت کہاں تک قابل اعتماد ہے۔ صرف ایک انسان کے حالات معلوم کرنے کی خاطر اس دور کے کم وبیش ۶ لاکھ انسانوں کے حالات مرتب کر دیے گئے تاکہ ہر وہ شخص جس نے کوئی روایت اس انسان عظیمؐ کا نام لے کر بیان کی ہے اس کی شخصیت کو پرکھ کر رائے قائم کی جا سکے کہ ہم اس کے بیان پر کہاں تک بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدوّن ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتال کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دُنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کہ کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کار فرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کار فرما رہی ہے؟