اس سلسلے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ایک مسئلے میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی صاف صاف تصریحات موجود ہوں تو ا س کے بارے میں غیر متعلق چیزوں سے نتائج نکالنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اپنے رسول کو تشریح کتاب اللّٰہ کے اختیارات بھی دیے ہیں اور تشریعی اختیارات بھی۔ سورہ نحل کی آیت ۴۴، سورہ اعراف کی آیت ۱۵۷، اور سورہ حشر کی آیت ۷، جنھیں اس سے پہلے ہم نقل کر چکے ہیں، اس معاملے میں بالکل واضح ہیں۔پھر نبی ﷺنے بھی صاف صاف اپنے ان اختیارات کو بیان کیا ہے۔
۱۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: لَا اُلْفِیَنَّ اَحَدَ کُمْ مُتَِّکئًا عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَاْتِیْہِ الْاَمْرُمِنْ اَمْرِیْ مِمَّا اَمَرْتُ بِہٖ اَوْنَھَیْتُ فَیَقُوْلُ لَااَدْرِیْ مَا وَجَدْنَافِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اِتَّبعْنَاہُ۔(احمد، شافعی، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، بیہقی فی دلائل النبوۃ)میں ہرگز نہ پائوں تم میں سے کسی شخص کو کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو اور اس کو میرے احکام میں سے کوئی حکم پہنچے۔ خواہ میں نے کسی چیز سے منع کیا ہو، یا کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو اور وہ سن کر کہے کہ میں نہیں جانتا، جو کچھ ہم کتاب اللّٰہ میں پائیں گے اُسی کی پیروی کریں گے۔‘
۲۔ مقدام بن معدیکرب کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اَلاَ اِنِیّ اُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہ‘ مَعَہ‘ اَلاَ یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَقُوْلُ عَلَیْکُمُ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَاَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحرِّمُوْہُ وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَاحَرَّمَ اللّٰہُ اَلاَ لاَ یَحِلُّ لَکُمُ الْحِمَارَ الْاَھْلِیَّ وَلَاکُلَّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ…(ابودائود، ابن ماجہ، دارمی، حاکم) خبردار رہو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ویسی ہی ایک اور چیز بھی۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنی مسند پر بیٹھا ہوا یہ کہنے لگے کہ بس تم قرآن کی پیروی کرو، جو کچھ اس میں حلال پائو، اسے حلال سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پائو اسے حرام سمجھو۔ حالانکہ دراصل جو کچھ اللّٰہ کا رسول حرام قرار دے وہ ویسا ہی حرام ہے جیسے اللّٰہ کا حرام کیا ہوا۔ خبردار رہو! تمھارے لیے پالتو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ کوئی کچلیوں والا درندہ حلال ہے۔‘‘ ({ FR 7038 })
۳۔ عرباض بن ساریہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اس میں فرمایا : اَیَحْسَبُ اَحَدُ کُمْ مُتَّکِئًا عَلٰی اَرِیْکَتِہٖ یَظُنُّ اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحَرِّمْ شَیْئًا اِلاَّ مَافِی الْقُرْآنِ اَلاَ وَاِنِّیْ وَاللّٰہِ قَدْ اَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَھَیْتُ عَنْ اَشْیَائٍ اِنَّھَا لِمِثْلِ الْقُرْآنِ اَوْ اَکْثَرَ وَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوْا بُُیُوْتَ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ بِاِذْنِ وَلَا ضَرَبَ نِسَائِ ھِمْ وَلَا اَکْلَ ثَمَارِھِمْ اِذَا اَعْطَوْکُمُ الَّذِیْ عَلَیْھِمْ(ابودائود)کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اللّٰہ نے کوئی چیز حرام نہیں کی سوائے ان چیزوں کے جو قرآن میں بیان کر دی گئی ہیں؟ خبردار رہو! خدا کی قسم میں نے جن باتوں کا حکم دیا ہے اور جو نصیحتیں کی ہیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے وہ بھی قرآن ہی کی طرح ہیں بلکہ کچھ زیادہ۔ اللّٰہ نے تمھارے لیے ہرگز یہ حلال نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں اجازت کے بغیر گھس جائو، یا ان کی عورتوں کو مارو پیٹو، یا ان کے پھل کھا جائو جب کہ وہ اپنے واجبات ادا کر چکے ہوں۔‘‘({ FR 7039 })
۴۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنّیِْ(بخاری و مسلم) ’’جو شخص میری سُنّت سے منہ پھیرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
اللّٰہ اور رسولؐ کے ان صاف صاف ارشادات کے بعد آخر اس استدلال میں کیا وزن رہ جاتا ہے کہ حدیثیں چوں کہ لکھوائی نہیں گئیں اس لیے وہ عام انطباق کے لیے نہ تھیں۔