سوال
سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴، حاشیہ۱۵۵، تفہیم القرآن، جلد اول صفحہ۱۲۶ میں ، اللّٰہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے روح جہاد سرد پڑتی ہے۔ اسی نوٹ میں آگے چل کر یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ انھیں مردہ کہنا حقیقت واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ لیکن پورے نوٹ کو پڑھنے سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح جہاد کے سرد نہ ہونے کی غرض سے انھیں مردہ نہ کہنا چاہیے۔ سورئہ یٰسٓ آیت ۲۶، حاشیہ ۲۳، تفہیم القرآن، جلد چہارم میں مردِ مومن کی شہادت کے بعد اس کے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتِ برزخ کو ثابت کرنے والی آیات میں سے یہ آیت بھی ایک ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالم برزخ میں روح جسم کے بغیر زندہ رہتی ہے، کلام کرتی ہے اور کلام سنتی ہے، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دل چسپیاں باقی رہتی ہیں ۔ اس پر اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس مقام میں تو ایک شہید کی حالت کا ذکر ہے اور شہید کی زندگی بعد موت کا ذکر قرآن میں سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴ور دیگر مقامات میں بھی ہے۔ لیکن تفہیم کے اس حاشیے میں ایک شہید کے حالات کو بھی عام وفات یافتہ انسانوں پر کیوں منطبق کیا گیا ہے؟
جواب
سورئہ البقرہ آیت۱۵۴کے جس نوٹ کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اس میں ’’مردہ نہ کہو‘‘ کی جو توجیہ میں نے کی ہے اس سے مقصود حیات شہدا و صالحین کے متعلق لوگوں کے اس خیال کی اصلاح ہے کہ وہ زندہ اس معنی میں ہیں کہ ہماری دعائیں سنتے ہیں ، حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے انھیں مردہ کہنے سے جس بنا پر روکا ہے اور ان کی حیات کا اثبات کیا ہے وہ کفار و منافقین کی ان باتوں کو رد کرنے کے لیے ہے جو وہ لَوْکَانُوْا عِنْدَنَا مَامَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا({ FR 2233 }) (آل عمران:۱۵۶)اور لَوْ اَطَاعُوْنَا مَاقُتِلُوْا ({ FR 2234 }) (آل عمران: ۱۵۶)کہہ کہہ کر اہل ایمان میں بزدلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ورنہ خود قرآن ہی میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ شہادت جسمانی موت تو ضرور ہے وَلَئِنْ مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإِلَی اللّٰہ تُحْشَرُوْنَ({ FR 2235 }) ( آل عمران:۱۵۸)مگر حقیقت میں یہ حیات جاوداں ہے بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنََ({ FR 2236 }) (آل عمران:۱۶۹)اسی معنی میں میں نے بھی انھیں مردہ کہنے کو حقیقت واقعہ کے خلاف قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے لیے حیاتِ برزخ اور حیاتِ اخروی ثابت ہے۔
سورئہ یٰسٓ کے حاشیہ۲۳کو اگر آپ سورئہ البقرہ کے حاشیہ ۱۵۵ اور سورئہ آلِ عمران کی آیت۱۵۸ کے ساتھ پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ شہدا کی حیات اصل میں برزخی حیات ہی ہے، ورنہ جسم و روح کی علیحدگی کے اعتبار سے جس طرح دوسرے لوگوں پر موت وارد ہوتی ہے اسی طرح شہدا پر بھی وارد ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے اور ان کی بیوہ کا نکاح ثانی جائز ہے۔ لیکن ان کو مردہ کہنے سے جس بنا پر منع کیا گیا ہے وہ اوپر میں بیان کر چکا ہوں ۔ (ترجمان القرآن، جنوری۱۹۷۷ء)