قدیم زمانے سے تمام انبیاء کی امتوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دین اسلام کبھی کسی نبی کے زمانے میں بھی ان دو چیزوں سے خالی نہیں رہا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کے انبیاء کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ۰ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَo الانبیاء73:22
ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے سے ان کو نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی تعلیم دی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّاo مریم 55:19
وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے دعا کی کہ خدایا ہمیں اس دنیا کی بھلائی بھی عطا کر اور آخرت کی بھلائی بھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ جواب میں ارشاد ہوا:
عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُ۰ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ فَسَاَكْتُبُہَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَo الاعراف 156:7
میں اپنے عذاب میں جسے چاہوں گا گھیر لوں گا، اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔مگر اس رحمت کو میں انھی لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو مجھ سے ڈریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ حکم دیا:
وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ۰۠ وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ مَا دُمْتُ حَيًّاo
مریم 31:19
اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت دی جہاں بھی میں ہوں اور مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑھوں اور زکوٰۃ دیتا رہوں جب تک زندہ رہوں۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ دینِ اسلام ابتدا سے ہر نبی کے زمانے میں نماز اور زکوٰۃ کے ان دو بڑے ستونوں پر قائم ہوا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا پر ایمان رکھنے والی کسی امت کو بھی ان دو فرضوں سے معاف کیا گیا ہو۔
اب دیکھیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں یہ دونوں فرض کس طرح ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جن آیات پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ کیا ہیں؟ یہ کہ:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۰ۚۖۛ فِيْہِ۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَo الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَo البقرہ 2,3:2
یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ان پرہیزگاروں کو دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
پھر فرمایا:
اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo البقرہ 5:2
ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور فلاح ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
یعنی جن میں ایمان نہیں اور جو نماز اور زکوٰۃ کے پابند نہیں وہ نہ ہدایت پر ہیں اور نہ انہیں فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔
اس کے بعد اس سورئہ بقرہ کو پڑھتے جایئے، چند صفحوں کے بعد پھر حکم ہوتا ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَo البقرہ 43:2
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو)
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار و مشرکین سے جنگ کا حکم دیا ہے اور مسلسل کئی رکوعوں تک جنگ ہی کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ توبہ 11:9
پھر اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کرلیں، ایمان لے آئیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی محض کفر و شرک سے توبہ کرنا اور ایمان کا اقرار کرلینا کافی نہیں ہے ۔ اس بات کا ثبوت کہ وہ واقعی کفر و شرک سے تائب ہوگئے ہیں اور حقیقت میں ایمان لائے ہیں، صرف اسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں۔ لہٰذا اگر وہ اپنے اس عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت دے دیں تب تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ورنہ ان کو بھائی نہ سمجھو اور ان سے جنگ بند نہ کرو۔