اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حریت فرد، فراخ دلی، سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت کا وہ نظام اجتماعی عدل کے منافی تھا جو انقلابِ فرانس کے نتیجے میں قائم ہوا تھا، ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ اشتراکیت بھی اس کے قطعی منافی ہے جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات کی پیروی میں اختیار کی جا رہی ہے۔ پہلے نظام کا قصور یہ تھا کہ اس نے فرد کو حدِ مناسب سے زیادہ آزادی دے کر خاندان، قبیلے ، برادری، معاشرے اور قوم پر تعدی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی اور اس سے اجتماعی فلاح کی خدمت لینے کے لیے معاشرے کی قوتِ ضابطہ کو بہت ڈھیلا کر دیا اور اس دوسرے نظام کا قصور یہ ہے کہ یہ ریاست کو حد سے زیادہ طاقتور بنا کر افراد، خاندانوں، قبیلوں اور برادریوں کی آزادی قریب قریب بالکل سلب کرلیتا ہے ، اور افراد سے معاشرے کی خدمت لینے کے لیے ریاست کو اتنا زیادہ اقتدار دے دیتا ہے کہ افراد ذی روح انسانوں کے بجائے ایک مشین کے بے روح پرزوں کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ بالکل جھوٹ کہتا ہے جو کہتا ہے کہ اس طریقے سے عدالت اجتماعیہ قائم ہوسکتی ہے۔