سوال : تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔شرک کے مسئلے پر ذہن اُلجھ گیا ہے۔ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خداوندتعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع وبصیر ہونا(جس کے تحت ہمار ے مروّجہ الفاظ حاضر وناظر بھی آجاتے ہیں) بھی شامل ہیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے۔ اور حقوق میں سجدہ ورکوع وغیرہ بھی ذات باری سے مختص ہیں۔شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ خود کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدمؑ کے لیے سجدہ کا حکم دیا۔اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے اور نہ کرواتا ہے۔مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اﷲ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟
جواب: آپ نے شرک کے مسئلے میں اپنی جو اُلجھنیں بیان فرمائی ہیں،وہ تفہیم القرآن کے مسلسل مطالعے سے بآسانی رفع ہوسکتی ہیں۔ میرے لیے ایک خط میں ان کو تفصیلاً رفع کرنا مشکل ہے۔تاہم چوں کہ’’شرک‘‘ کا معاملہ بڑا ہی نازک اور خطرناک ہے، اور میں نہیں چاہتا کہ آپ اس اُلجھن میں زیادہ دیر تک مبتلا رہیں،اس لیے اختصار کے ساتھ چند الفاظ میں آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ سجدہ بجائے خود شرک نہیں ہے بلکہ شرک کی علامت ہے۔اصل میں شرک تو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک فی الذات یا فی الصفات یا فی الحقوق ٹھیرانا ہے۔سجدہ اگر اس طرح کے کسی عقیدے کے ساتھ ہو تو شرک ہے،ورنہ اس فعل سے چوں کہ مشرکین کے ساتھ عملاً مشابہت ہوتی ہے،اس لیے اسے بجائے خود شرک ہونے کی بِنا پر نہیں بلکہ اس مشابہت کی بِنا پر ممنوع ٹھیرایا گیا ہے۔ تخلیق آدمؑ کے وقت اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو خود حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔اس لیے فرشتوں نے جو کچھ کیا،وہ اﷲ عزوجل کے حکم صریح کی تعمیل میں تھا۔ بطور خود وہ آدمؑ کو قابل پرستش یا قابل تعظیم سمجھ کر نہیں جھک گئے تھے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت یوسف ؈ کے سامنے والدین اور بھائیوں نے جو سجدہ کیا،وہ اس رؤیاے صادقہ کی بِنا پر تھا جو قرآن کی رو سے اﷲ تعالیٰ نے خود دکھایا تھا،جسے حضرت یعقوب ؈ نے الٰہی اشارہ قرار دیا تھا(سورۂ یوسف آیات 4 تا 6)، اور جس کو حضرت یوسف؈ نے بھی آخر کار اسی خواب کا مصداق ٹھیرایا(سورۂ یوسف آیت100) اس لیے یہاں بھی جو کچھ ہوا،اﷲ کے حکم سے ہوا۔اور ظاہر ہے کہ جو کام اﷲ کے حکم کی تعمیل میں کیا جائے، وہ شرک نہیں ہوسکتا۔
اب اس شخص کے معاملے کو لیجیے جو اﷲ تعالیٰ کے کسی فرمان کے بغیر کسی بندے کو معظم ومقدس سمجھ کر بطور خود اس کے آگے سجدہ بجالائے ۔ کیا کسی دلیل سے اس فعل کو بھی غیر مشرکانہ کہا جاسکتاہے؟کیا یہ استدلال صحیح ہوسکتا ہے کہ جب اﷲ نے پہلے دونوں معاملوں میں سجود لغیر اﷲ کو جائز رکھا ہے تو یہ فعل مطلقاً جائز ہے؟ یا یہ کہ ہم خدا کے حکم کے بغیر خود جسے چاہیں،تعظیماً سجدہ کرسکتے ہیں؟ سورۂ کہف میں اﷲ تعالیٰ اپنے ایک خاص بندے کے متعلق ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں مصالح کی بِنا پر حکم خداوندی سے کچھ مساکین کی کشتی عیب دار کر دی، اور ایک لڑکے کو قتل کردیا۔کیا اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ہم بھی مصلحت دیکھ کر جس کے مال کو چاہیںنقصان پہنچا دینے اور جسے چاہیں قتل کردینے کے مجاز ہیں؟جب اﷲ او راس کے رسولؐ نے نصوصِ شرعیہ کے ذریعے سے غیر اﷲ کے لیے سجدے کو حرام کردیا ہے،اور دوسروں کی جان ومال میں تصرف کے لیے حدود مقرر کردیے ہیں، تو کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بعض خصوصی۱ فعال کو نظیر قرار دے کر اور ان پر قیاس کرکے ان ممنوعات کو اپنے لیے مباح کرلے۔
(ترجمان القرآن، مارچ 1962ء)