برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کے سامنے انفاق فی سبیل اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے) کے عام احکام بیان کر چکا ہوں۔ اب میں اس حکم کے دوسرے حصے کی تفصیلات بیان کرتا ہوں جو زکوٰۃ سے متعلق ہے، یعنی جسے فرض کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ کے متعلق تین احکام
زکوٰۃ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ الگ الگ احکام بیان فرمائے ہیں:
۱۔ سورۂ بقرہ میں فرمایا:
اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ (البقرہ 2:267)
جو پاک مال تم نے کمائے ہیں اور جو پیداوار ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرو۔
۲۔ سورۂ انعام میں فرمایا کہ ہم نے تمھارے لیے زمین سے باغ اگائے ہیں اور کھیتیاں پیدا کی ہیں، لہٰذا:
كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۰ۡۖ (الانعام 6:141)
اس کی پیداوار جب نکلے تو اس میں سے کھائو اور فصل کٹنے کے دن اللہ کا حق نکال دو۔
یہ دونوں آیتیں زمین کی پیداوار کے متعلق ہیں، اور فقہائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ خود رَو پیداوار مثلاً لکڑی اور گھانس اور بانس{ FR 1631 }کے سوا باقی جتنی چیزیں غلّہ، ترکاری، اورپھلوں کی قسم سے نکلیں ان سب میں سے اللہ کا حق نکالنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو پیداوار آسمانی بارش سے ہو اس میں اللہ کا حق دسواں حصہ ہے اور جو پیداوار انسان کی اپنی کوشش یعنی آبپاشی سے ہو اس میں اللہ کا حق بیسواں حصہ ہے، اور یہ حصّہ پیداوار کٹنے کے ساتھ ہی واجب ہو جاتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد سورۂ توبہ میں آتا ہے :
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍoلا يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُكْوٰي بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ۰ۭ ہٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَo
(التوبہ 9:35-34)
جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس میں سے راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری دے دو۔ اس دن کے عذاب کی جب ان کے اس سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوئوں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔لو، اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔
زکوٰۃ کی فرضیت
ذیل کی آیات میں زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے:
۴۔ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ o (التوبہ 9:60)
یہ صدقات (یعنی زکوٰۃ) تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
۵۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ 9:103)
اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (فرض زکوٰۃ) لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو۔
ان پانچوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ جو مال جمع کیا جائے اور بڑھایا جائے، اور اس میں سے راہِ خدا میں صَرف نہ کیا جائے وہ ناپاک ہوتا ہے۔ اس کے پاک کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس میں سے خدا کا حق نکال کر اس کے بندوں کو دیا جائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب سونا اور چاندی جمع کرنے والوں پر عذاب کی دھمکی آئی تو مسلمان سخت پریشان ہوئے، کیوں کہ اس کے معنی تو یہ ہوتے تھے کہ ایک درہم بھی اپنے پاس نہ رکھو، سب خرچ کر ڈالو۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضور نبی کریم a کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قوم کی پریشانی کا حال عرض کیا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو تم پر اسی لیے فرض کیا ہے کہ باقی اموال تمھارے لیے پاک ہو جائیں۔
ایسی ہی روایت حضرت ابوسعیدؓ خدری سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ جب تو نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو جو حق تجھ پر واجب تھا وہ ادا ہو گیا۔
آیات مذکورۂ بالا میں تو صرف زمین کی پیداوار اور سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا حکم ملتا ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارتی مال، اونٹ، گائے اور بکریوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔
چند اشیا کا نصابِ زکوٰۃ
۱۔ چاندی کا نصاب: دو سو درہم یعنی ۲۔۱ ۵۲ ( ساڑھے باون)تولے کے قریب ہے۔
۲۔ سونے کا نصاب: ۲۔۱ ۷ (ساڑھے سات)تولے۔
۳۔ اونٹ کا نصاب: ۵ اُونٹ۔
۴۔ بکریوں کا نصاب: ۴۰ بکریاں۔
۵۔ گائے کا نصاب: ۳۰ گائیں۔
۶۔ اورتجارتی مال کا نصاب: ۲۔۱ ۵۲(ساڑھے باون) تولے چاندی کے بقدر مالیت۔
جس شخص کے پاس اتنا مال موجود ہو، اور اس پر سال گزرجائے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکوٰۃ کا نکالنا واجب ہے۔ چاندی اور سونے کے متعلق حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دونوں الگ الگ بقدرِ نصاب نہ ہوں، لیکن دونوں مل کر کسی ایک کے نصاب کی حد تک ان کی قیمت پہنچ جائے تو ان میں سے بھی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے۔
زیورات پر زکوٰۃ
سونا اور چاندی اگر زیور کی صورت میں ہوں تو حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعودؓ کے نزدیک ان کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور امام ابو حنیفہؒ نے یہی قول لیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ:
۱۔ رسول اللہ a نے دو عورتوں کے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھے اورپوچھا کہ کیا تم زکوٰۃ نکالتی ہو؟ ایک نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تو پسند کرے گی کہ قیامت کے روز ان کے بدلے آگ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں؟
۲۔ اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ میرے پاس سونے کی پازیب تھی۔ میں نے حضورؐ سے پوچھا: کیا یہ کنز ہے؟ آپؐ نے فرمایا : اگر اس میں سونے کی مقدار نصابِ زکوٰۃ تک پہنچتی ہے اور اس میں سے زکوٰۃ نکال دی گئی ہے تو یہ کنز نہیں ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی اگر زیور کی شکل میں ہوں تب بھی اسی طرح زکوٰۃ فرض ہے جس طرح نقد کی صورت میں ہونے پر ہے، البتہ جواہر اور نگینوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے مستحقین
قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ حق دار بیان کیے گئے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ فقرا
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو، مگر ان کی ضرورت کے لیے کافی نہ ہو۔ تنگ دستی میں گزر بسر کرتے ہوں اور کسی سے مانگتے نہ ہوں۔ابن عباسؓ، امام زہریؒ، امام ابوحنیفہؒ، حسن بصریؒ، ابوالحسن کرخیؒ اور دوسرے بزرگوں نے فقیر کی یہی تعریف فرمائی ہے۔
۲۔ مساکین
یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہیں جن کے پاس اپنے تن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کچھ نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شمار فرماتے ہیں جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں، مگر انھیں روز گار نہ ملتا ہو۔
۳۔ عاملین علیہا
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں اسلامی حکومت زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر کرے۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دی جائے گی۔
۴۔ مؤلفۃ القلوب
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کی حمایت کے لیے، یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لیے روپیہ دینے کی ضرورت پیش آئے۔ نیز ان میں وہ نو مسلم بھی داخل ہیں جنھیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی کافر قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آ ملنے کی وجہ سے بے روزگار یا تباہ حال ہو گیا ہو، تب تو اس کی مدد کرنا مسلمانوں پر ویسے ہی فرض ہے، لیکن اگر وہ مال دار ہو، تب بھی اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے تاکہ اس کا دل اسلام پرجم جائے۔ جنگِ حنین کے موقع پر نبی a نے مالِ غنیمت میں سے نو مسلموں کو بہت مال دیا، حتیٰ کہ ایک ایک شخص کے حصے میں سو سو اونٹ آئے۔ انصار نے اس کی شکایت کی تو حضورؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ ابھی ابھی کفر سے اسلام میں آئے ہیں، میں ان کے دل کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ اسی بنا پر امام زہریؒ نے مؤلفۃ القلوب کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ جو عیسائی یا یہودی یا غیر مسلم اسلام میں داخل ہواہو، اگرچہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔{ FR 1632 }
۵۔ فی الرّقاب
اس سے مطلب یہ ہے کہ جو شخص غلامی کے بند سے چھوٹنا چاہتا ہو اس کو زکوٰۃ دی جائے تاکہ وہ اپنے مالک کو روپیہ دے کر اپنی گردن غلامی سے چھڑا لے۔آج کل کے زمانے میں غلامی کا رواج نہیں ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جو لوگ جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے قید بھگت رہے ہوں ان کو زکوٰۃ دے کر رہائی حاصل کرنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی فی الرقاب کی تعریف میں آ جاتا ہے۔
۶۔ الغارمین
ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرض دار ہوں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے پاس ہزار روپیہ ہو اور وہ سو روپے کا قرض دار ہو تو اس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس پر اتنا قرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس مقدارِ نصاب سے کم مال بچتا ہو، اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ فقہائے کرام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی فضول خرچیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے قرض دار ہوا ہو اُس کو زکوٰۃ دینا مکروہ ہے کیونکہ پھر وہ اس بھروسے پر اور زیادہ جرأت کے ساتھ بدکاریاں اور فضول خرچیاں کرے گا کہ زکوٰۃ لے کر قرض ادا کر دوں گا۔
۷۔ فی سبیل اللہ
یہ عام لفظ ہے جو تمام نیک کاموں پر استعمال ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر اس سے مراد دین حق کا جھنڈا بلند کرنے کی جدوجہد میں مدد کرنا ہے۔ نبی a نے فرمایا کہ زکوٰۃ لینا کسی مال دار آدمی کے لیے جائز نہیں۔ لیکن اگر مال دار آدمی جہاد کے لیے مدد کا حاجت مند ہو تو اسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی جگہ مال دار سہی، لیکن جہاد کے لیے جو غیر معمولی مصارف ہوتے ہیں ان کو وہ محض اپنے مال سے کس طرح پورا کر سکتا ہے۔ اس کام میں زکوٰۃ سے اس کی مدد کرنی چاہیے۔
۸۔ ابنُ السّبیل (یعنی مسافر)
اگرچہ مسافر کے پاس اس کے وطن میں کتنا ہی مال ہو، لیکن حالتِ مسافرت میں اگر وہ محتاج ہے تو اُسے زکوٰۃ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کسے دی جائے اور کسے نہیں؟
اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ آٹھ گروہ جو بیان ہوئے ہیں اِن میں سے کس شخص کو کس حال میں زکوٰۃ دینی چاہیے، اور کس حال میں نہ دینی چاہیے۔ اس کی بھی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دیتا ہوں:
۱۔ کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ اس میں فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض فقہا یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایسے قریبی عزیزوں کو زکوٰۃ نہیں دینی چاہیے جن کا نفقہ تم پر واجب ہو، یا جو تمھارے شرعی وارث ہوں، البتہ دور کے عزیز زکوٰۃ کے حق دار ہیں، بلکہ دوسروں سے زیادہ حق دار ہیں، مگر امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ نکال کر اپنے ہی عزیزوں کو نہ ڈھونڈتے پھرو۔
۲۔ زکوٰۃ صرف مسلمان کاحق ہے۔ غیر مسلم کا حق نہیں ہے۔ حدیث میں زکوٰۃ کی تعریف یہ آئی ہے کہ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَآئِ کُمْ وَتُرَدُّ اِلٰی فُقَرَآئِ کُمْ (متفق علیہ) ’’یعنی وہ تمھارے مال داروں سے لی جائے گی اور تمھارے ہی فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘ البتہ غیر مسلم کو عام خیرات میں سے حصہ دیا جا سکتا ہے،بلکہ عام خیرات میں یہ تمیز کرنا اچھا نہیں ہے کہ مسلمان کو دی جائے اور کوئی غیر مسلم مدد کا محتاج ہو تواس سے ہاتھ روک لیا جائے۔
۳۔ امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی بستی کے غریبوں میں صَرف ہونی چاہیے۔ ایک بستی سے دوسری بستی میں بھیجنا اچھا نہیں ہے۔ اِلاَّیہ کہ وہاں کوئی حق دار نہ ہو یا دوسری جگہ کوئی ایسی مصیبت آ گئی ہو کہ دورونزدیک کی بستیوں سے مدد پہنچنی ضروری ہو، جیسے سیلاب یا قحط وغیرہ۔ قریب قریب یہی رائے امام مالکؒ اور امام سفیان ثَوریؒ کی بھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ بھیجنا ناجائز ہے۔
۴۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ جس شخص کے پاس دو وقت کے کھانے کا سامان ہو اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ جس کے پاس دس روپے اور بعض فرماتے ہیں کہ جس کے پاس ساڑھے بارہ روپے موجود ہوں اسے زکوٰۃ نہ لینی چاہیے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور تمام حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس روپے سے کم ہوں وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ اس میں مکان اور گھر کا سامان اور گھوڑا اور خادم شامل نہیں ہیں۔ یعنی یہ سب سامان رکھتے ہوئے بھی جو شخص پچاس روپے سے کم مال رکھتا ہو وہ زکوٰۃ لینے کا حق دار ہے۔ اس معاملے میں ایک چیز تو ہے قانون اور دوسری چیز ہے درجۂ فضیلت۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ درجۂ فضیلت تو یہ ہے کہ حضور a نے فرمایا:
o جو شخص صبح و شام کی روٹی کا سامان رکھتا ہو، وہ اگر سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اپنے حق میں آگ جمع کرتا ہے۔
o دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ ایک شخص لکڑیاں کاٹے اور اپنا پیٹ بھرے، بہ نسبت اس کے کہ سوال کے لیے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔
o تیسری حدیث میں ہے کہ جس کے پاس کھانے کو ہو یا جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اس کا یہ کام نہیں ہے کہ زکوٰۃ لے، لیکن یہ اولواالعزمی کی تعلیم ہے۔
رہا قانون تو اس میں ایک آخری حد بتانی ضروری ہے کہ کہاں تک آدمی زکوٰۃ لینے کا حق دار ہو سکتا ہے۔ سو وہ دوسری حدیثوں میں ملتا ہے۔ مثلا: آپؐ نے فرمایا :
o لِلسَّآئِلَ حَقٌّ وَّاِنْ جَآئَ عَلَی الْفَرَسِ (ابودائود)
یعنی سائل کا حق ہے، اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آیا ہو۔
o ایک شخص نے حضور a سے عرض کیا کہ میرے پاس دس روپے ہیں کیا میں مسکین ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں۔
o ایک مرتبہ دو آدمیوں نے آ کر حضورؐ سے زکوٰۃ مانگی۔ آپؐ نے نظر اٹھا کرانھیں غور سے دیکھا، پھر فرمایا: اگر تم لینا چاہتے ہو تو میں دے دوں گا، لیکن اس مال میں غنی اور کمانے کے قابل ہٹّے کٹّے لوگوں کا حصہ نہیں ہے۔
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بقدرِ نصاب مال سے کم رکھتا ہو، وہ فقرا کے ذیل میں آجاتا ہے اور اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ زکوٰۃ لینے کا حق دراصل اصلی حاجت مندوں ہی کو پہنچتا ہے۔
زکوٰۃ کے لیے اجتماعی نظام کی ضرورت
زکوٰۃ کے ضروری احکام میں نے بیان کر دیے ہیں، لیکن ان سب کے ساتھ ایک اہم اور ضروری چیز اور بھی ہے جس کی طرف میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کیونکہ مسلمان آج کل اس کو بھول گئے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اسلام میں تمام کام نظامِ جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انفرادیت کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ آپ مسجد سے دور ہوں اور الگ نماز پڑھ لیں تو ہو جائے گی، مگر شریعت تو یہی چاہتی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ اسی طرح نظامِ جماعت نہ ہوتو الگ الگ زکوٰۃ نکالنا اور خرچ کرنا بھی صحیح ہے، لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ زکوٰۃ کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے تاکہ وہاں سے وہ ایک ضابطے کے ساتھ خرچ ہو۔ اسی چیز کی طرف قرآن مجید میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبۃ 9:103)
اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ (یعنی فرض زکوٰۃ) لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ وصول کریں۔ مسلمانوں سے یہ نہیں فرمایا کہ تم زکوٰۃ نکال کر الگ الگ خرچ کر دو۔
اسی طرح عاملینِ زکوٰۃ کا حق مقرر کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا امام اس کو باقاعدہ وصول کرے اور باقاعدہ خرچ کرے۔ اسی طرح نبی a نے فرمایا:
اُمِرْتُ اَنْ اٰخُذَالصَّدَقَۃَ مِنْ اَغْنِیَآئ ِکُمْ وَاَرُدَّھَا فِیْ فُقَرَآئِ کُمْ۔ (بخاری، مسلم)
یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھار ے مال داروںسے زکوٰۃ وصول کروں اور تمھارے فقرا میں تقسیم کردوں۔
اسی طریقے پرنبی a اور خلفائے راشدین کا عمل بھی تھا۔ تمام زکوٰۃ حکومتِ اسلامی کے کارکن جمع کرتے تھے اورمرکز کی طرف سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ آج اگر اسلامی حکومت نہیں ہے اور زکوٰۃ جمع کرکے باضابطہ تقسیم کرنے کا انتظام بھی نہیں ہے تو آپ علیحدہ علیحدہ اپنی زکوٰۃ نکال کر شرعی مصارف میں خرچ کر سکتے ہیں، مگر تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک اجتماعی نظام بنانے کی فکر کریں، کیونکہ اس کے بغیر زکوٰۃ کی فرضیت کے فوائد ادھورے رہ جاتے ہیں۔