Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

زکوٰۃ

زکوٰۃ کی اہمیت
برادرانِ اسلام! نماز کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلے میں نماز کے بعد روزے کا نام لیا جاتا ہے، اس لیے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نماز کے بعد روزے کا نمبر ہے، مگر قرآن مجید سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کے بعد سب سے بڑھ کر زکوٰۃ کی اہمیت ہے۔ یہ دو بڑے ستون ہیں جن پراسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ان کے ہٹنے کے بعد اسلام قائم نہیں رہ سکتا۔
زکوٰۃ کے معنی
زکوٰۃ کے معنی ہیں پاکی اور صفائی کے۔ اپنے مال میں سے ایک حصہ حاجت مندوں اور مسکینوں کے لیے نکالنے کو زکوٰۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس طرح آدمی کا مال، اور اس مال کے ساتھ خود آدمی کا نفس بھی پاک ہو جاتا ہے۔ جو شخص خدا کی بخشی ہوئی دولت میں سے خدا کے بندوں کا حق نہیں نکالتا اس کا مال ناپاک ہے، اور مال کے ساتھ اس کا نفس بھی ناپاک ہے، کیونکہ اُس کے نفس میں احسان فراموشی بھری ہوئی ہے۔ اس کا دل اتنا تنگ ہے، اتنا خود غرض ہے، اتنا زرپرست ہے کہ جس خدا نے اس کو حقیقی ضروریات سے زیادہ دولت دے کر اس پر احسان کیا، اس کے احسان کا حق ادا کرتے ہوئے بھی اُس کا دل دکھتا ہے۔ ایسے شخص سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دنیا میں کوئی نیکی بھی خدا کے واسطے کر سکے گا، کوئی قربانی بھی محض اپنے دین و ایمان کی خاطر برداشت کرے گا۔ لہٰذا ایسے شخص کا دل بھی ناپاک اور اس کا وہ مال بھی ناپاک جسے وہ اس طرح جمع کرے۔
زکوٰۃ___ ایک امتحان
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا فرض عائد کرکے ہر شخص کو امتحان میں ڈالا ہے۔ جو شخص بخوشی اپنی ضرورت سے زیادہ مال میں سے خدا کا حق نکالتا ہے اور اس کے بندوں کی مدد کرتا ہے وہی اللہ کے کام کا آدمی ہے اور وہی اس لائق ہے کہ ایمان داروں کی جماعت میں اس کا شمار کیا جائے، اور جس کا دل اتنا تنگ ہے کہ وہ اتنی ذرا سی قربانی بھی خداوندِ عالم کے لیے برداشت نہیں کر سکتا، وہ اللہ کے کسی کام کا نہیں۔ وہ ہرگز اس لائق نہیں کہ اہلِ ایمان کی جماعت میں داخل کیا جائے۔ وہ توایک سڑا ہوا عضو ہے جسے جسم سے الگ ہی کر دینا بہتر ہے، ورنہ سارے جسم کو سڑا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب a کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبرؓ نے اُن سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
تمام انبیا ؑ کی امتوں پر زکوٰۃ کی فرضیت
قرآن مجید اٹھا کر دیکھیے۔ آپ کو نظر آئے گا کہ قدیم زمانے سے تمام انبیا علیہم الصلوٰۃ و السلام کی امتوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دین اسلام کبھی کسی نبی کے زمانے میں بھی ان دو چیزوں سے خالی نہیں رہا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی نسل کے انبیا ؑکا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہوتاہے:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ۝۰ۚ وَكَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَo (الانبیائ 21:73)
ہم نے ان کو انسانوں کا پیشوا بنایا۔ وہ ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ہم نے وحی کے ذریعے سے ان کو نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے کی تعلیم دی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے:
وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّ كٰوۃِ ۝۰۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا o (مریم 19:55)
وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے دعا کی کہ خدایا! ہمیں اس دنیا کی بھلائی بھی عطا کر اور آخرت کی بھلائی بھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ جواب میں ارشاد ہوا:
عَذَابِيْٓ اُصِيْبُ بِہٖ مَنْ اَشَاۗءُ۝۰ۚ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۝۰ۭ فَسَاَكْتُبُہَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ o (اعراف 7:156)
میں اپنے عذاب میں جسے چاہوں گا گھیرلوں گا اگرچہ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، مگر اس رحمت کو میں انھی لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو مجھ سے ڈریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم چونکہ چھوٹے دل کی تھی اور روپے پر جان دیتی تھی۔ جیسا کہ آج بھی یہودیوں کا حال آپ دیکھتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اتنے جلیل القدر پیغمبر کی دعا کے جواب میں صاف فرما دیا کہ تمھاری امت اگر زکوٰۃ کی پابندی کرے گی تب تو اس کے لیے میری رحمت کا وعدہ ہے، ورنہ ابھی سے صاف سن رکھو کہ وہ میری رحمت سے محروم ہو جائے گی اور میرا عذاب اسے گھیر لے گا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑکے بعد بھی بار بار بنی اسرائیل کو اس بات پر تنبیہ کی جاتی رہی۔ بار بار ان سے عہد لیے گئے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نماز وزکوٰۃ کی پابندی کریں (سورۂ بقرہ، رکوع۱۰)۔ یہاں تک کہ آخر میں صاف نوٹس دے دیا گیا کہ:
وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ (المائدہ 5:12)
یعنی اللہ نے فرمایاکہ اے بنی اسرائیل! میں تمھارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو، اور میرے رسولوں پر ایمان لائو، اور جو رسول آئیں ان کی مدد کرو، اور اللہ کو قرضِ حسن دو تو میں تمھاری برائیاں تم سے دُور کر دوں گا۔
رسول اللہ a سے پہلے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔ سو اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ حکم دیا، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے:
وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ مَا دُمْتُ حَيًّاo
(مریم 19:31)
اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت دی جہاں بھی میں ہوں اور مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑھوں اور زکوٰۃ دیتا رہوں جب تک زندہ رہوں۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ دینِ اسلام ابتدا سے ہر نبی کے زمانے میں نماز اور زکوٰۃ کے ان دو بڑے ستونوں پر قائم ہوا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا پر ایمان رکھنے والی کسی امت کو بھی ان دو فرضوں سے معاف کیا گیا ہو۔
امتِ مسلمہ پر زکوٰۃ کی فرضیت
اب دیکھیے کہ حضرت رسولِ کریم a کی شریعت میں یہ دونوں فرض کس طرح ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں؟ قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جن آیات پر آپ کی نظر پڑتی ہے وہ کیا ہیں؟ یہ کہ:
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج صلے فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o لا الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلـٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o لا (البقرہ 2:2۔3)
یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ پرہیزگاروں کو دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے، اور پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
پھر فرمایا:
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّ بِّھِمْ ق وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (البقرہ 2:5)
ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور فلاح ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
یعنی جن میں ایمان نہیں اور جو نماز اور زکوٰۃ کے پابند نہیں وہ نہ ہدایت پر ہیں اور نہ انھیں فلاح نصیب ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد اسی سورۂ بقرہ کو پڑھتے جائیے۔ چند صفحوں کے بعد پھر حکم ہوتا ہے:
اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّ کٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ o (البقرہ 2:43)
نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو)۔
پھر تھوڑی دُور آگے چل کر اسی سورہ میں ارشاد ہوا:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (البقرہ2: 177)
نیکی محض اس کا نام نہیں ہے کہ مشرق یامغرب کی طرف تم نے منہ کر لیا، بلکہ نیکی اُس شخص کی ہے جس نے اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور کتابِ الٰہی اور پیغمبروں پرایمان رکھا اور اللہ کی محبت میں اپنے حاجت مند رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں اورمسافروں اور سائلوں پر اپنا مال خرچ کیا اور (قرض یااسیری) سے گردنیں چھڑانے میں مدد دی اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ ادا کی۔ اور نیک لوگ وہ ہیں جو عہد کرنے کے بعد اپنے عہد کو پورا کریں اور مصیبت اور نقصان اور جنگ کے موقع پر صبر کے ساتھ راہِ حق پر ڈٹ جائیں۔ ایسے ہی لوگ سچے مسلمان ہیں اورایسے ہی لوگ متقی وپرہیز گار ہیں۔
پھر آگے دیکھیے، سورۂ مائدہ میں کیا ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَo وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَo
(المائدہ 5:56-55)
مسلمانو! تمھارے حقیقی دوست اور مددگار صرف اللہ اور رسولؐ اور ایمان دار لوگ ہیں، یعنی ایسے لوگ جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور خدا کے آگے جھکتے ہیں۔ پس جو شخص اللہ اور رسولؐ اور ایمان دار لوگوں کو دوست بنائے وہ اللہ کی پارٹی کا آدمی ہے اور اللہ کی پارٹی ہی غالب ہونے والی ہے۔
اہل ایمان کی نشانی___ نماز وزکوٰۃ
اس عظیم الشان آیت میں ایک بڑا قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو اس آیت سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان دو ارکانِ اسلام سے جو لوگ رُوگردانی کریں اُن کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے۔ پھر اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ اور رسولؐ اور اہلِ ایمان کی ایک پارٹی ہے اور ایمان دار آدمی کا کام یہ ہے کہ سب سے الگ ہو کر اسی پارٹی میں شامل ہو جائے۔ جو مسلمان اس پارٹی سے باہر رہنے والے کسی شخص کو خواہ وہ باپ ہو، بھائی ہو، بیٹا ہو، ہمسایہ یا ہم وطن ہو، یا کوئی بھی ہو، اگر وہ اس کو اپنا دوست بنائے گا اور اس سے محبت اور مددگاری کا تعلق رکھے گا تو اسے یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ اس سے مددگاری کا تعلق رکھنا پسند فرمائے گا۔ سب سے آخر میں اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کو غلبہ اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ یکسو ہو کر اللہ اور رسولؐ اور صرف اہلِ ایمان ہی کو اپنا ولی، مددگار، دوست اور ساتھی بنائیں۔
اسلامی اخوت کی بنیادیں
اب آگے چلیے۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار ومشرکین سے جنگ کا حکم دیا ہے اور مسلسل کئی رکوعوں تک جنگ ہی کے متعلق ہدایات دی ہیں۔ اس سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ تَا بُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ (التوبۃ 9:11)
پھر اگر وہ کفر وشرک سے توبہ کریں، ایمان لے آئیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں۔
یعنی محض کفر وشرک سے توبہ کرنا اورایمان کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ وہ واقعی کفر وشرک سے تائب ہو گئے ہیں اور حقیقت میں ایمان لائے ہیں، صرف اسی طرح مل سکتا ہے کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں۔ لہٰذا اگر وہ اپنے اس عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت دے دیں تب تو تمھارے دینی بھائی ہیں، ورنہ ان کو بھائی نہ سمجھو اور ان سے جنگ بند نہ کرو۔
پھر آگے چل کر اسی سورہ میں فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۝۰ۭ (التوبہ 9:71)
مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں، اور ان مومن مردوں اور عورتوں کی صفات یہ ہیں کہ و ہ نیکی کا حکم دیتے ہیں، بدی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، اور خدا اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ رحمت کرے گا۔
سن لیا آپ نے! کوئی شخص مسلمانوں کا دینی بھائی بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اقرارِ ایمان کرکے عملاً نماز اور زکوٰۃ کی پابندی نہ کرے۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ یہ تین چیزیں مل کر ایمان داروں کی جماعت بناتی ہیں۔ جو لوگ ان تینوں کے پابند ہیں وہ اس پاک جماعت کے اندر ہیں اورانھی کے درمیان دوستی، محبت، رفاقت اور مددگاری کا تعلق ہے ،اور جو اِن کے پابند نہیں، وہ اس جماعت کے باہر ہیں، خواہ وہ نام کے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ ان سے دوستی، محبت اور رفاقت کا تعلق رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ تم نے اللہ کے قانون کو توڑ دیا اور اللہ کی پارٹی کو منتشر کر دیا، پھر تم دنیا میں غالب ہو کر رہنے کی امید کیسے کر سکتے ہو؟
اللہ کی مدد کی شرائط
اور آگے چلیے۔ سورۂ حج میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌo اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o
(الحج 22:41-40)
اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے، اور اللہ زبردست قوت والا اور سب پر غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں حکومت بخشیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے اور سب چیزوں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بھی وہی نوٹس دیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ ابھی آپ کو سنا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کیا نوٹس دیا تھا۔ ان سے صاف فرما دیا تھا کہ میں اسی وقت تک تمھارے ساتھ ہوں جب تک تم نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے نبیوں کے مشن میں ان کا ساتھ دوگے۔ یعنی میرے قانون کو دنیا میں جاری کرنے کی کوشش کرتے رہو گے۔ جونہی تم نے اس کام کو چھوڑا، پھر میں اپنا ہاتھ تمھاری مدد سے کھینچ لوں گا۔ ٹھیک یہی بات اللہ نے مسلمانوں سے بھی فرمائی ہے۔ ان سے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر زمین میں طاقت حاصل کرکے تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے اور نیکیاں پھیلائو گے اور بدیوں کو مٹائو گے، تب تومیں تمھارا مددگار ہوں، اور جس کا میں مددگار ہوں اسے کون دبا سکتا ہے۔ لیکن اگر تم نے زکوٰۃ سے منہ پھیرا، اور زمین میں حکومت حاصل کرکے نیکیوں کے بجائے بدیاں پھیلائیں اور بدیوں کے بجائے نیکیوں کو مٹانا شروع کیا اور میرا کلمہ بلند کرنے کے بجائے اپنا کلمہ بلند کرنے لگے، اور خراج وصول کرکے اپنے لیے زمین پر جنتیں بنانے ہی کو وراثتِ ارضی کا مقصود سمجھ لیا، تو سن رکھو کہ میری مدد تمھارے ساتھ نہ ہو گی۔ پھر شیطان ہی تمھارامددگار رہ جائے گا۔
مسلمانوں کو تنبیہ
اللہ اکبر! کتنا بڑا عبرت کا مقام ہے۔ جو دھمکی بنی اسرائیل کو دی گئی تھی، اس کو انھوں نے خالی خولی زبانی دھمکی سمجھا اور اس کے خلاف عمل کرکے اپنا انجام دیکھ لیا کہ آج روئے زمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں، جگہ جگہ سے نکالے جا رہے ہیں اور کہیں ٹھکانا نہیں پاتے۔ کروڑہا کروڑ روپے کے کھتے] گودام[ ان کے پاس بھرے پڑے ہیں، دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند قوم ہیں، مگر یہ روپیہ ان کے کسی کام نہیں آتا۔ نماز کے بجائے بدکاری اور زکوٰۃ کے بجائے سود خواری کا ملعون طریقہ اختیار کرکے انھوں نے خود بھی خدا کی لعنت اپنے اوپر مسلّط کرا لی اور اب اس لعنت کو لیے ہوئے طاعون کے چوہوں کی طرح دنیا بھر میں اسے پھیلاتے پھر رہے ہیں۔ پھر یہی دھمکی مسلمانوں کو دی گئی اور مسلمانوں نے اس کی کچھ پروا نہ کرکے نماز اور زکوٰۃ سے غفلت کی، اور خدا کی بخشی ہوئی طاقت کو نیکیاں پھیلانے اور بدیوں کو مٹانے میں استعمال کرنا چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ حکومت کے تخت سے اتار کرپھینک دیے گئے، دنیا بھر میں ظالموں کا تختۂ مشق بن رہے ہیں اور روئے زمین میں ہر جگہ ضعیف اور مغلوب ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ کو چھوڑنے کا انجامِ بد تو دیکھ چکے، اب ان میں ایک جماعت ایسی پیدا ہوئی ہے جو مسلمانوں کو بے حیائی، فحش اور بدکاری میں مبتلا کرنا چاہتی ہے، اور ان سے کہہ رہی ہے کہ تمھارے افلاس کا علاج یہ ہے کہ بینک اور انشورنس کمپنیاں قائم کرو، اور سود خواری شروع کر دو۔ خدا کی قسم، اگر انھوں نے یہ کیا تو وہی ذلت اور خواری ان پرمسلط ہو کر رہے گی جس میں یہودی مبتلا ہوئے ہیں اور یہ بھی خدا کی اُس لعنت میں گرفتار ہو جائیں گے جس نے بنی اسرائیل کو گھیر رکھا ہے۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کا انجام
برادرانِ اسلام! آئندہ خطبوں میں مَیں آپ کو بتائوں گا کہ زکوٰۃ کیا چیز ہے؟کتنی بڑی طاقت اللہ نے اس چیز میں بھر دی ہے، اور آج جس رحمت خداوندی کو مسلمان ایک معمولی چیز سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت میں کتنی بڑی برکتیں رکھتی ہے؟ آج کے خطبے میں میرا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا تھا کہ نماز اور زکوٰۃ کا اسلام میں کیا درجہ ہے۔ بہت سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں اور ان کے مولوی ان کو رات دن یہ اطمینان دلاتے رہتے ہیں کہ نماز نہ پڑھ کر اور زکوٰۃ نہ دے کر بھی وہ مسلمان رہتے ہیں، مگر قرآن اس کی صاف الفاظ میں تردید کرتا ہے۔ قرآن کی رُو سے کلمہ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں کو کافر سمجھ کر ان کے خلاف تلوار اٹھائی تھی۔ جیسا کہ میں ابھی آپ سے بیان کر چکا ہوں۔ صحابۂ کرامؓ کو ابتدا میں شبہ تھا کہ آیا وہ مسلمان جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے، اُن لوگوں کے زُمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں جن پر تلوار اٹھانے کا حکم ہے، مگر جب حضرت ابوبکرؓ، جن کو اللہ نے مقامِ نبوت کے قریب درجہ عطا فرمایا تھا، اپنی بات پر اڑ گئے اور انھوں نے اصرار کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی قسم، اگر یہ لوگ اس زکوٰۃ میں سے جو رسول اللہa کے عہد میں دیا کرتے تھے، اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی روکیں گے تو میں ان پر تلوار اٹھائوں گا، تو بالآخر تمام صحابہؓ کے دلوں کو اللہ نے حق کے لیے کھول دیا اور سب نے یہ بات تسلیم کر لی کہ زکوٰۃ سے انکار کرنے والے پر جہاد کرنا چاہیے۔ قرآن مجید تو صاف کہتا ہے کہ زکوٰۃ نہ دینا ان مشرکین کا کام ہے جو آخرت کے منکر ہیں:
وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ o لا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْتُوْنَ الزَّ کٰوۃَ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ o
( حٰم سجدہ 41:7-6)
تباہی ہے اُن مشرکین کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں۔
٭…٭…٭

شیئر کریں