اس مقدمے کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلّیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دُنیا میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے۔ اس کے پاس ایک جسم ہے جس میں بہت سی قوتیں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے زمین وآسمان کی ایک عظیم الشان بساط پھیلی ہوئی ہے جس میں بے حد وحساب اشیا ہیں اور وہ ان اشیا سے کام لینے کی قدرت اپنے اندر پاتا ہے۔ اس کے گرد وپیش بہت سے انسان، جانور، نباتات، جمادات وغیرہ ہیں، اور ان سب سے اس کی زندگی وابستہ ہے۔ اب کیا آپ کے نزدیک یہ بات قابل تصوّر ہے کہ وہ ان چیزوں کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک کہ پہلے خود اپنے بارے میں، ان تمام موجودات کے بارے میں، اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے؟ کیا وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی راستہ اختیار کر سکتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لے کہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ ذمہ دار ہوں یا غیر ذمہ دار؟ خود مختار ہوں یا ماتحت؟ ماتحت ہوں تو کس کا، اور جواب دہ ہوں تو کس کے سامنے؟ میری اس دنیوی زندگی کا کوئی مآل ہے یا نہیں اور ہے تو کیا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اپنی قوتوں کے لیے کوئی مصرف تجویز کر سکتا ہے جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ کر لے کہ یہ جسم اور جسمانی قوتیں اس کی اپنی مِلک ہیںیا کسی کا عطیہ ہیں؟ ان کا حساب کوئی لینے والا ہے یا نہیں؟ اور ان کے استعمال کا ضابطہ اسے خود متعین کرنا ہے یا کسی اور کو؟ اسی طرح کیا وہ اپنے گرد وپیش کی اشیا کے متعلق کوئی طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے جب تک اس امرکا تعین نہ کرلے کہ ان اشیا کا مالک وہ خود ہے یا کوئی اور؟ ان پر اس کے اختیارات محدود ہیں یا غیر محدود؟ اور محدود ہیں تو حدود مقرر کرنے والا کون ہے؟ اسی طرح کیا وہ آپس میں اپنے ابنائے نوع کے برتائو کی کوئی شکل متعین کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے کہ انسانیت کس چیز سے عبارت ہے؟ انسان اور انسان کے درمیان فرق وامتیاز کی بنیاد کیا ہے؟ اور دوستی ودشمنی، اتفاق واختلاف ، تعاون اور عدمِ تعاون کی اساس کن امور پر ہے؟ اس طرح کیا وہ بحیثیت مجموعی اس دُنیا کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہ پہنچے کہ یہ نظامِ کائنات کس قسم کا ہے اور اس میں میری حیثیت کیا ہے؟
جومقدمہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس کی بنا پر بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام امور کے متعلق ایک نہ ایک رائے قائم کیے بغیر کوئی رویّہ اختیار کرنا غیر ممکن ہے۔ فی الحقیقت ہر انسان جو دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے ان سوالات کے متعلق شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر کوئی نہ کوئی رائے ضرور رکھتا ہے اور رکھنے پر مجبور ہے کیوں کہ وہ اس رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص نے ان سوالات پر فلسفیانہ غور وفکر کیا ہو اور واضح طور پر تنقیحات قائم کرکے ایک ایک سوال کا فیصلہ کیا ہو، نہیں، بہت سے آدمیوں کے ذہن میں ان سوالات کی سرے سے کوئی متعین صورت ہوتی ہی نہیں، نہ وہ کبھی ان پر بالارادہ سوچتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے ہر آدمی اجمالی طور پر ان سوالات کے متعلق منفی یا مثبت پہلو میں ایک رائے پر لازماً پہنچ جاتا ہے، اور زندگی میں اس کا رویّہ جو بھی ہوتا ہے لازمی طور پر اُس رائے کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ بات جس طرح اشخاص کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح جماعتوں کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ چوں کہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں اس لیے کسی نظامِ تمدن وتہذیب اورکسی ہیئتِ اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے۔ اور ان کا جواب جو بھی متعین کیا جائے گا اس کے لحاظ سے اَخلاق کا ایک نظریہ قائم ہوگا، اسی کی نوعیت کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل ہو گی اور فی الجملہ پورا تمدن ویساہی رنگ اختیار کرے گا جیسا اس جواب کا مقتضا ہو گا۔ درحقیقت اس معاملے میں کوئی تخالف ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہ ایک شخص کا رویّہ ہو یا ایک سوسائٹی کا، بہرحال وہ ٹھیک وہی نوعیت اختیار کرے گا جو ان سوالات کے جوابات کی نوعیت ہو گی۔ حتّٰی کہ اگر آپ چاہیں تو ایک شخص یا ایک جماعت کے رویّے کا تجزیہ کرکے بآسانی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس رویّے کی تہہ میں زندگی کے ان بنیادی سوالات کا کون سا جواب کام کر رہا ہے۔ کیوں کہ یہ بات قطعی محال ہے کہ کسی شخصی یا اجتماعی رویّے کی نوعیت کچھ ہو اور ان سوالات کے جواب کی نوعیت کچھ اور ہو۔ اختلاف، زبانی دعوے اور واقعی رویےّ کے درمیان تو ضرور ہو سکتا ہے، لیکن ان سوالات کا جو جواب درحقیقت نفس کے اندر متمکن ہے اس کی نوعیت اور عملی رویّے کی نوعیت میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
اچھا اب ہمیں ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے۔ زندگی کے یہ بنیادی مسائل جن کے متعلق ابھی آپ نے سنا کہ ان کا کوئی حل اپنے ذہن میں متعین کیے بغیر آدمی دُنیا میں ایک قدم نہیں چل سکتا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ سب امورِ غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب اُفق پر لکھا ہوا نہیں ہے کہ ہر انسان دُنیا میں آتے ہی اسے پڑھ لے۔ اور ان کا کوئی جواب ایسا بد یہی نہیں ہے کہ ہر انسان کو خود بخود معلوم ہو جائے۔ اسی وجہ سے ان کا کوئی ایک حل نہیں ہے جس پر سارے انسان متفق ہوں۔ بلکہ ان کے بارے میں ہمیشہ انسانوں کے درمیان اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف انسان مختلف طریقوں سے انھیں حل کرتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انھیں حل کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں، کیا کیا صورتیں دُنیا میں اختیار کی گئی ہیں اور ان مختلف صورتوں سے جو حل نکلتے ہیں وہ کس قسم کے ہیں۔
ان کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے حواس پر اعتماد کرے اور حواس سے جیسا کچھ محسوس ہوتا ہے اُسی کی بنا پر ان امور کے متعلق ایک رائے قائم کر لے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مشاہدۂ حِسیّ کے ساتھ وہم وقیاس کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جائے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ پیغمبروں نے حقیقت کا براہِ راست علم رکھنے کا دعوٰی کرتے ہوئے ان مسائل کا جو حل بیان کیا ہے اسے قبول کر لیا جائے۔
دُنیا میں اب تک ان مسائل کے حل کی یہی تین صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور غالباً یہی تین صورتیں ممکن بھی ہیں۔ ان میں سے ہر صورت ایک جداگانہ طریقے سے ان مسائل کو حل کرتی ہے، ہر ایک حل سے ایک خاص قسم کا رویّہ وجود میں آتا ہے اور ایک خاص نظامِ اَخلاق اور نظامِ تمدن بنتا ہے جو اپنی بنیادی خصوصیات میں دوسرے تمام حلوں کے پیدا کردہ رویوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اب میں دکھانا چاہتا ہوں کہ ان مختلف طریقوں سے ان مسائل کے کیا حل نکلتے ہیں، اور ہر ایک حل کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے۔