Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے قرآن
(۱) ترجمان القرآن کی تنقید
(۲) مصنّف کا جواب
(۳) ’’ترجمان القرآن‘‘ کا جواب الجواب
(۴) ایک دوسرے اہلِ قلم کی طرف سے مصنّف کے نظریہ کی تائید
(۵) ترجمان القرآن کا آخری جواب{ FR 5521 }
زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث
مزارعت کا مسئلہ
اِصلاح کے حدود اور طریقے

مسئلہ ملکیتِ زمین

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

زمین کی شخصی ملکیت ازرُوئے حدیث

نبی اکرمa اور خلفائے راشدینؓ کے عہد میں زمین کا انتظام کس طریقے پر کیا گیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ شریعت کی رُو سے اسلامی حکومت کے زیرحکم آنے والی اراضی چار بڑی اَقسام پر منقسم ہوتی ہیں:
اراضی کی چارقسمیں
۱- وہ جن کے مالک اسلام قبول کرلیں۔
۲- وہ جن کے مالک اپنے دین ہی پر رہیں مگر ایک معاہدے کے ذریعہ سے اپنے آپ کو اسلامی حکومت کی تابعیت میں دیں۔
۳- وہ جن کے مالک بزورِ شمشیر مغلوب ہوں۔
۴- وہ جو کسی کی ملک میں نہ ہوں۔
اِن میں سے ہر ایک کے متعلق آں حضرتa اور آپؐ کے خلفاءؓ نے کیا طرزِعمل اختیار کیا تھا، اسے ہم الگ الگ بیان کریں گے۔
قسمِ اوّل کا حکم
پہلی قسم کی املاک کے معاملہ میں نبی اکرمa نے جس اصول پر عمل فرمایا وہ یہ تھا:
اِنَّ القوم اذا اسلموا احرزوا دماءھم واموالھم
(ابوداؤد، کتاب الخراج، باب فی اقطاع الارضین)
’’جب لوگ اسلام قبول کرلیں تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتے ہیں‘‘۔
انہ من اسلم علٰی شی ءٍ فَھُو لَہٗ (کتاب الاموال، لابی عبید)
’’آدمی اسلام قبول کرتے وقت جن املاک کا مالک تھا وہ اُسی کی مِلک رہیں گی‘‘۔
یہ اُصول جس طرح املاکِ منقولہ پر چسپاں ہوتا تھا اسی طرح غیرمنقولہ پر بھی چسپاں ہوتا تھا، اور اس معاملہ میں جو برتائو غیرزرعی جائدادوں کے ساتھ تھا وہی زرعی جائدادوں کے ساتھ بھی تھا۔ حدیث اور آثار کا پورا ذخیرہ اس پر شاہد ہے کہ آں حضرتa نے عرب میں کسی جگہ بھی اسلام قبول کرنے والوں کی املاک سے ذرّہ برابر کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ جو جس چیز کا مالک تھا اسی کا مالک رہنے دیا گیا۔ اس باب میں اسلامی قانون کی تشریح امام ابویوسفl ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جو لوگ اسلام قبول کرلیں اُن کا خون حرام ہے۔ قبولِ اسلام کے وقت جن اموال کے وہ مالک ہوں وہ انھی کی مِلک رہیں گے۔ اسی طرح ان کی زمینیں بھی اُنھی کی مِلک رہیں گی اور وہ زمینیں عشری قرار دی جائیں گی۔ اس کی نظیر مدینہ ہے جس کے باشندوں نے رسول اللہa کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور وہ اپنی زمین کے مالک رہے اور اُن پر عُشر لگا دیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ طائف اور بحرین کے لوگوں سے بھی کیا گیا۔ اسی طرح بدویوں میں سے بھی جن جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ اپنے اپنے چشموں اور اپنے اپنے علاقوں کے مالک تسلیم کیے گئے… اُن کی زمین عشری زمین ہے۔ وہ اس سے بے دخل نہیں کیے جاسکتے، اور انھیں اس پر بیع اور وراثت کے جملہ حقوق حاصل ہیں۔ بالکل اسی طرح جن علاقوں کے باشندے اسلام قبول کرلیں وہ اپنی املاک کے مالک رہیں گے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۵)
اسلامی قانونِ معیشت کے دوسرے جلیل القدر محقق امام ابوعبید القاسم بن سلام لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ a اور آپؐ کے خلفا سے جو آثار ہم تک پہنچے ہیں وہ اراضی کے بارے میں تین قسم کے احکام لائے ہیں۔ ایک قسم ان اراضی کی جن کے مالک اسلام قبول کرلیں۔ تو قبولِ اسلام کے وقت وہ جن اراضی کے مالک ہوں وہ اُنھی کی مِلک رہیں گی اور وہ عشری زمینیں قرار پائیں گی۔ عشر کے سوا ان پر اور کچھ نہ لگے گا…‘‘ (کتاب الاموال، ص ۵۵)
آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’جس علاقے کے باشندے اسلام لے آئے وہ اپنی زمینوں کے مالک رہے، جیسے مدینہ، طائف، یمن اور بحرین۔ اسی طرح مکّہ اگرچہ بزورِ شمشیر فتح ہوا، لیکن رسول اللہa نے اس کے باشندوں پر احسان کیا اور ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا اور ان کے اَموال کو غنیمت نہ ٹھہرایا… پس جب ان کے اموال ان کی مِلک میں چھوڑ دیئے گئے اور اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی املاک کا حکم بھی وہی ہوگیا جو دوسرے مسلمان ہونے والے لوگوں کی املاک کا تھا، اور ان کی زمینیں بھی عشری قرار دی گئیں۔ (ص۵۱۲)
علامہ ابنُ القیمl ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نبی کریمa کا طریقہ یہ تھاکہ جو شخص اسلام لانے کے وقت جس چیز پر قابض تھا وہ اسی کے قبضہ میں رہنے دی گئی۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ اسلام لانے سے پہلے وہ چیز کس ذریعہ سے اس کے قبضہ میں آئی تھی۔ بلکہ وہ اس کے ہاتھ میں اسی طرح رہنے دی گئی جس طرح وہ پہلے سے چلی آرہی تھیں‘‘۔ (جلد۲،ص ۹۶)
یہ ایک ایسا قاعدۂ کلیہ ہے جس میں استثناء کی کوئی ایک مثال بھی عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت راشدہؓ کے نظائر میں نہیں ملتی۔ اسلام نے اپنے پیروئوں کی معاشی زندگی میں جو اصلاحیں بھی جاری کیں آیندہ کے لیے کیں، مگر جو ملکیتیں پہلے سے لوگوں کے قبضے میں چلی آرہی تھیں ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔
قسمِ دُوُم کا حکم
دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنھوں نے اسلام تو قبول نہ کیا مگر مصالحانہ طریقہ سے اسلامی حکومت کے تابع بن کر رہنا قبول کرلیا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں جو اصول نبی اکرمa نے مقررفرمایا وہ یہ تھا کہ جن شرائط پر بھی ان سے مصالحت ہوئی ہو انھیں بے کم و کاست پورا کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں آپ کا ارشاد ہے:
لعلکم تقاتلون قومًا فیظھرون علیکم فیتقون باموالھم دُون انفسھم وابناء ھم فتصالحونھم علٰی صلح فلا تصیبوا منھم فوق ذٰلک فانہ لا یصلح (ابوداؤود، ابن ماجہ)
’’اگر کبھی ایسا ہو کہ کسی قوم سے تمھاری جنگ ہو، پھر وہ تمھارے سامنے آکر اپنی اور اپنے بال بچوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنے مال دینے پر تیار ہوجائیں، اور تم ان سے صلح کرلو، تو ایسی صورت میں جس چیز پر ان سے تمھاری صلح ہو اس سے زائد کچھ نہ لینا کیوں کہ وہ تمھارے لیے جائز نہیں ہے‘‘۔
الا من ظلم معاھدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہٖ او اخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس فان حجیجہ یوم القیٰمۃ (ابوداؤد)
’’خبردار رہو، جو شخص کسی معاہد ذمی پر ظلم کرے گا، یا ازرُوئے معاہدہ اس کے جو حقوق ہوں ان کے اندر کوئی کمی کرے گا، یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بار ڈالے گا، یا اس سے اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز لے گا، اس کے خلاف مَیں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا‘‘۔
اسی اصول کے مطابق نبی اکرمa نے نجران، اَیلہ، اَذرُعات، ہجر اور دوسرے جن جن علاقوں اور قبیلوں کے ساتھ صلح کی ان سب کو اُن کی زمینوں، جایدادوں اور صنعتوں اور تجارتوں پر بدستور بحال رہنے دیا اور صرف وہ جزیہ و خراج ان سے وصول کرنے پر اکتفا فرمایا جس پر ان سے معاہدہ ہوا تھا۔ پھر اسی پر خلفائے راشدینؓ نے بھی عمل کیا۔ عراق، شام، الجزیرہ، مصر، آرمینیہ، غرض جہاں جہاں بھی کسی شہر اور کسی بستی کے لوگوں نے صلح کے طریقے پر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے حوالہ کیا ان کی املاک بدستور ان کے قبضے میں رہنے دی گئیں اور ان سے مالِ صلح کے سوا کوئی چیز کبھی وصول نہ کی گئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بعض اہم مصلحتوں کی بنا پر نجران کے باشندوں کو اندرونِ عرب سے شام و عراق کی طرف منتقل کیا بھی گیا تو ان میں سے جس جس کے پاس نجران میں جتنی زرعی اور سکنی جایداد تھی اس کے بدلے میں نہ صرف اُتنی ہی جایداد اسے دوسری جگہ دی گئی بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنے شام و عراق کے گورنروں کے نام فرمانِ عام لکھا کہ جس کے علاقے میں بھی وہ جاکر آباد ہوں وہ فلیوسّعھم من خریب الارض ’’وہ فراغ دلی کے ساتھ افتادہ زمینوں میں سے انھیں دے‘‘۔(کتاب الاموال لابی عبید،ص ۱۸۹)
اس قاعدئہ کلیہ میں بھی کسی استثنا کی مثال عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت ِ راشدہؓ کے نظائر سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ یہ بھی فقہائے اسلام کا متفق علیہ قانون ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام ابویوسف l اسے اپنی کتاب الخراج میں ایک قانونی دفعہ کے طور پر اس طرح ثبت فرماتے ہیں:
’’غیر مسلموں میں سے جس قوم کے ساتھ اس بات پر امام کی صلح ہوجائے کہ وہ مطیعِ حکم ہوجائیں اور خراج ادا کریں تو وہ اہلِ ذمہ ہیں، ان کی اراضی اراضیٔ خراج ہیں، ان سے بس وہی کچھ لیا جائے گا جس پر ان سے صلح ہوئی ہو، ان کے ساتھ عہد پورا کیا جائے اور ان پر کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے گا‘‘۔ (ص ۳۵)
قسم سِوُم کے احکام
رہے وہ لوگ جو آخر وقت تک مقابلہ کریں اور بزورِ شمشیر مغلوب ہوں، تو ان کے بارے میں تین مختلف طرزِعمل ہمیں عہد نبوتؐ و خلافت ِ راشدہؓ میں ملتے ہیں:
ایک وہ طرزِعمل جو نبی اکرمa نے مکہ میں اختیار فرمایا، یعنی فتح کے بعد لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کا اعلانِ عام اور مفتوحین کو جان و مال کی پوری معافی۔اس صورت میں، جیساکہ اُوپر بیان ہوچکا ہے، اہلِ مکہ اپنی زمینوں اور جایدادوں کے بدستور مالک رہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زمینیں عشری زمینیں قرار دے دی گئی۔
دوسرا وہ طرزِعمل جو آپؐ نے خیبر میں اختیار فرمایا، یعنی مفتوح علاقے کو مالِ غنیمت قرار دینا۔ اس صورت میں سابق مالکوں کی ملکیت ساقط کردی گئی، ایک حصہ خدا اور رسولؐ کے حق میں لے لیا گیا، اور باقی زمین کو ان لوگوں پر تقسیم کردیا گیا جو فتح خیبر کے موقع پر لشکرِ اسلام میں شامل تھے۔ یہ تقسیم شدہ زمینیں جن جن لوگوں کے حصے میں آئیں وہ ان کے مالک قرار پائے اور ان پر عشر لگا دیا گیا۔ (کتاب الاموال، لابی عبید،ص ۵۱۳)
تیسرا وہ طرزِعمل جو حضرت عمرؓ نے ابتداء ً شام اور عراق میں اختیار فرمایا اور بعد میں تمام مفتوح ممالک کا بندوبست اسی کے مطابق ہوا، وہ یہ تھا کہ آپ نے مفتوح علاقے کو فاتح فوج میں تقسیم کرنے کے بجائے اسے تمام مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت قرار دیا، اس کا انتظام مسلمانوں کی طرف سے نیابتاً اپنے ہاتھ میں لے لیا، اصل باشندوں کو حسب ِ سابق ان کی زمینوں پر بحال رہنے دیا، ان کو ذمّی قرار دے کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا، اور اس جزیہ و خراج کا مصرف یہ قرار دیا کہ وہ عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر صَرف ہو، کیوں کہ بنیادی نظریہ کے اعتبار سے وہی ان مفتوح علاقوں کے اصل مالک تھے۔
اس آخری صورت میں بظاہر ’’اجتماعی ملکیت‘‘ کے تصور کا ایک دھندلا سا شائبہ پایا جاتا ہے، مگر جس طرح یہ پورا معاملہ طے ہوا تھا اس کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجتماعی ملکیت کو اشتراکیت کے تصور سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب مصروشام اور عراق کے وسیع علاقے فتح ہوئے تو حضرت زبیرؓ، حضرت بلالؓ اور ان کے ہم خیال لوگوں نے حضرت عمرؓ سے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں کی تمام زمینیں اور جایدادیں خیبر کی طرح فاتح فوج میں تقسیم کردی جائیں، لیکن حضرت عمرؓ نے اس سے انکار کیا اور حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل جیسے اکابر صحابہؓ نے اس معاملہ میں اُن کی تائید کی۔ اس انکار کے وجوہ کیا تھے؟ اس پر وہ تقریریں روشنی ڈالتی ہیں جو اس موقع پر ہوئیں۔ حضرت معاذ ؓ نے کہا:
’’اگر آپ اسے تقسیم کریں گے تو خدا کی قسم اس کا نتیجہ وہ ہوگا جو آپ ہرگز پسند نہ کریں گے۔ بڑی بڑی زرخیز زمینوں کے ٹکڑے فوج میں تقسیم ہوجائیں گے۔ پھر یہ لوگ مرکھپ جائیں گے اور کسی کی وارث کوئی عورت ہوگی اور کسی کا ورث کوئی بچہ ہوگا، پھر جو دوسرے لوگ اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اُٹھیں گے انھیں دینے کے لیے حکومت کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ لہٰذا آپ وہ کام کیجیے جس میں آج کے لوگوں کے لیے بھی گنجائش ہو اور بعد والوں کے لیے بھی‘‘۔
حضرت علیb نے فرمایا:
’’ملک کی کاشت کار آبادی کو اس کے حال پر رہنے دیجیے تاکہ وہ سب مسلمانوں کے لیے معاشی قوت کا ذریعہ ہوں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مَیں زمین کو تم لوگوں پر تقسیم کردوں اور بعد کے آنے والوں کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ ان کا اس میں کچھ حصہ نہ ہو… آخر بعد کی نسلوں کے لیے کیا رہے گا؟… کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ آیندہ آنے والوں کے لیے کچھ نہ رہے؟… اور مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر مَیں اسے تمھارے درمیان تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں فساد کرنے لگو گے‘‘۔
اس بنیاد پر جو فیصلہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ زمین اس کے سابق باشندوں ہی کے پاس رہنے دی جائے، اور انھیں ذمی بنا کر ان پر جزیہ و خراج لگا دیا جائے اور یہ خراج مسلمانوں کی عام فلاح پر صرف ہو۔ اس فیصلہ کی اطلاع حضرت عمرؓ نے اپنے عراق کے گورنر، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو جن الفاظ میں دی تھی وہ یہ ہیں:
فانظر ما اجلبوا بہٖ عَلیک فی العسکر من کراع او مال فاقسمہ بین من حضر من المسلمین واترک الارضین لعمالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین ، فانّـا لو قسمنا ھابین من حضر لم یکن لمن بعدھم شی ءٌ{ FR 5567 }
’’جو کچھ اموال منقولہ سپاہیوں نے دورانِ جنگ میں بطورِ غنیمت حاصل کیے ہیں اور لشکر میں جمع کرا دیے ہیں انھیں تو انھی لوگوں میں تقسیم کردو جو جنگ میں شریک ہوئے تھے، مگر نہروں اور زمینوں کو انھی لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دو جو ان پر کام کرتے تھے تاکہ وہ مسلمانوں کی تنخواہوں کے لیے محفوظ رہیں، ورنہ اگر ہم انھیں بھی موجودہ لوگوں میں تقسیم کردیں تو پھر بعد والوں کے لیے کچھ نہ رہے گا‘‘۔
اس نئے بندوبست کا اساسی نظریہ تو یہی تھا کہ اب ان مفتوحہ اراضی کے مالک مسلمان ہیں، اور سابق مالکوں کی اصل حیثیت صرف کاشت کارانہ ہے، اور حکومت مسلمانوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملہ کر رہی ہے،{ FR 5568 } لیکن عملاً ذمّی بنالینے کے بعد انھیں جو حقوق دیے گئے وہ مالکانہ حقوق سے کچھ بھی مختلف نہ تھے۔ وہ انھی رقبوں پر قابض رہے جن پر پہلے قابض تھے۔ ان پر خراج کے سوا کوئی دوسری چیز حکومت یا مسلمانوں کی طرف سے عائد نہ کی گئی اور ان کو اپنی زمینوں پر بیع اور رہن اور وراثت کے وہ تمام حقوق بدستورحاصل رہے جو پہلے حاصل تھے۔ اس معاملہ کو امام ابویوسفؒ ایک قانونی ضابطہ کی شکل میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’جس سرزمین کو امام بزورِ شمشیر فتح کرے اس کے معاملہ میں وہ اختیار رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو فاتح فوج میں اسے تقسیم کردے۔ اس صورت میں وہ عشری زمین ہوجائے گی، لیکن اگر وہ تقسیم کرنا مناسب نہ سمجھے، اور بہتر یہی خیال کرے کہ اسے اس کے پُرانے باشندوں کے ہاتھوں میں رہنے دے، جیساکہ حضرت عمرؓ نے عراق میں کیا، تو وہ ایسا کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اس صورت میں وہ زمین خراجی ہوگی اور خراج لگ جانے کے بعد پھر امام کو یہ حق باقی نہ رہے گا کہ اس کے باشندوں سے اسے چھین لے۔ وہ ان کی مِلک ہوگی، وہ اسےوراثت میں ایک دوسرے کی طرف منتقل کریں گے، اس کی خریدوفروخت کرسکیںگے ، ان پر خراج لگا دیا جائے گا ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے گا‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۵-۳۶)
قسم چہارُم کے اَحکام
مذکورہ بالا تین قسمیں تو اُن اراضی کی تھیں جو پہلے سے مختلف قسم کے لوگوں کی ملکیت میں تھیں اور اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد یا تو ان کی پچھلی ملکیتوں ہی کی توثیق کر دی گئی، یا بعض حالات میں اگر ردّ و بدل کیا بھی گیا تو صرف ہاتھوں میں کیا گیا نہ کہ بجائے خود نظامِ ملکیت میں۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جن زمینوں کا کوئی مالک نہ تھا، یا نہ رہا تھا، ان کے بارے میں نبی اکرمa اور آپؐ کے خلفا نے کیا طرزِعمل اختیار فرمایا:
اس نوعیت کی اراضی دو بڑی اصناف پر مشتمل تھیں:
ایک ’’مَوَات‘‘یعنی اُفتادہ زمینیں، خواہ وہ عادیُّ الارض ہوں (جن کے مالک مرکھپ گئے ہوں) یا جن کا کبھی کوئی مالک رہا ہی نہ ہو، یا جو جھاڑیوں، دلدلوں اور سیلابوں کے نیچے آگئی ہوں۔
دوسری ’’خالصہ‘‘ زمینیں، یعنی جن کو سرکاری املاک قرار دیا گیا تھا۔ ان میں کئی طرح کی اراضی شامل تھیں۔ ایک وہ جنھیں مالکوں نے خود ان سے دست بردار ہوکر حکومت کو اختیار دے دیا تھا کہ انھیں جس طرح چاہے استعمال کرے۔{ FR 5574 } دوسری وہ جن کے مالکوں کو اسلامی حکومت نے بے دخل کرکے خالصہ کرلیا تھا۔ مثلاً مضافاتِ مدینہ میں بنی نضیر کی زمینیں۔ تیسری وہ جو مفتوحہ علاقوں میں خالصہ قرار دی گئی تھیں۔ مثلاً وہ اراضی جو عراق میں کسریٰ اور اس کے اہلِ خاندان کے قبضہ میں تھیں، یا جن کے مالک جنگ میں مارے گئے یا بھاگ گئے تھے ، اور حضرت عمرؓ نے انھیں خالصہ قرار دے دیا تھا۔{ FR 5580 }
ان دونوں اقسام کا حکم ہم الگ الگ بیان کریں گے۔
حقوقِ ملکیت بربنائے آبادکاری
’’مَوَات‘‘ کے بارے میں نبی اکرمa نے اس قدیم ترین اُصول کی تجدید فرمائی جس سے دُنیا میں ملکیت زمین کا آغاز ہوا ہے۔ جب انسان نے اس کرئہ خاکی کو آباد کرنا شروع کیا تو اُصول یہی تھا کہ جو جہاں رہ پڑا ہے وہ جگہ اسی کی ہے، اور جس جگہ کو کسی نے کسی طور پر کارآمد بنالیا ہے اُس کے استعمال کا وہی زیادہ حق دار ہے۔ یہی قاعدہ تمام عطیاتِ فطرت پر انسان کے مالکانہ حقوق کی بنیاد ہے، اور اسی کی توثیق نبی اکرمaنے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں فرمائی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے:
عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من عمر ارضًا لیست لاحدٍ فَھُو احق بھا ، قال عروۃ قضٰی بہٖ عمر فی خلافتہٖ (بخاری، احمد، نسائی)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمa نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی ایسی زمین کو آباد کیا جو کسی دوسرے کی ملک نہ ہو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیںکہ اسی پر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عمل درآمد کیا‘‘۔
عن جابرٍ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احیٰی ارضًا میتۃ فھی لَہٗ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن حبان)
’’جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ جس کسی نے مُردہ زمین کو زندہ کیا (یعنی بے کار پڑی ہوئی زمین کو کارآمد بنا لیا) وہ زمین اسی کی ہے‘‘۔
عن سمرہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احاط حائطًا علٰی ارض فھی لَہٗ (ابوداؤد)
’’سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرمایا: جس نے کسی اُفتادہ زمین پر احاطہ کھینچ لیا وہ اُسی کی ہے‘‘۔
عن اسمر بن مضرس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من سبق الٰی ماء لم یسبقہ اِلیہ مسلم فَھُو لَہٗ (ابوداؤد)
’’اسمر بن مضرس سے روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرمایا: جو شخص کسی ایسے کنوئیں کو پائے جس پر پہلے کوئی مسلمان قابض نہ ہو وہ کنواں اسی کا ہے‘‘۔
عن عروۃ قال اشھد انَّ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضٰی ان الارض ارض اللہ والعباد عباد اللہ ، ومن احیٰی مواتًا فَھُو احق بھا ، جاءنا بھٰذا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذین جاؤا بالصلوات عنہ (ابوداؤد)
’’عروہ بن زبیر (تابعی) کہتے ہیں کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہaنے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ زمین خدا کی ہے اور بندے بھی خدا کے ہیں، جو شخص کسی مُردہ زمین کو زندہ کرے، وہی زمین کا زیادہ حق دار ہے۔ یہ قانون ہم تک نبیaسے انھی بزرگوں کے ذریعہ پہنچا ہے جن کے ذریعہ سے پنج وقتہ نماز پہنچی ہے (یعنی صحابہ کرامؓ)‘‘۔
اس فطری اصول کی تجدید و توثیق کرنے کے ساتھ آں حضرتa نے اس کے لیے دو ضابطے مقرر فرما دیے۔ ایک یہ کہ جو شخص دوسرے کی مملوکہ زمین کو آباد کرے وہ اس فعل آبادکاری کی بنا پر ملکیت کا حق دار نہ ہوجائے گا۔ دوسرے یہ کہ جو شخص خواہ مخواہ احاطہ کھینچ کر یا نشان لگاکر کسی زمین کو روک رکھے اور اس پر کوئی کام نہ کرے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہوجائے گا۔ پہلے ضابطہ کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
عن سعید بن زید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احییٰ ارضًا میتۃً فھی لَہٗ ولیس لِعِرُقٍ ظَالمٍ حقٌ (احمد، ابوداؤد، ترمذی)
’’سعید بن زید کہتے ہیں کہ رسول اللہa نے فرمایا: جس کسی نے کسی مُردہ زمین کو زندہ کر لیا وہ اسی کی ہے، اور دوسرے کی زمین میں ناروا طور پر آبادکاری کرنے والے کے لیے کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
دوسرے ضابطہ کا مآخذ یہ روایات ہیں:
عن طاؤس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عادیّ الارض لِلّٰہِ وللرسول ثم لکم من بعد فمن احیٰی ارضًا میتۃً فھی لَہٗ ولیس لمحتجر حق بعد ثلٰث سنین (ابویوسف، کتاب الخراج)
’’طاؤس (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہa نے فرمایا: غیرمملوکہ زمین جس کا کوئی ولی و وارث نہ ہو، خدا اور رسولؐ کی ہے، پھر اس کے بعد وہ تمھارے لیے ہے۔ پس جو کوئی کسی مُردہ زمین کو زندہ کرلے وہ اسی کی ہے اور بے کار روک کر رکھنے والے کے لیے تین سال کے بعد کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
عن سالم بن عبداللہ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال علی المنبر من احیٰی ارضًا میتۃً فھی لَہٗ وَلیس لمحتجر حق بعد ثلٰث سنین وذٰلک ان رجالًا کَانُوا یحتجرون من الارض ما لا یعملون (ابوسف، کتاب الخراج)
’’سالم بن عبداللہ (حضرت عمرؓ کے پوتے) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرb نے برسرِ منبر فرمایا کہ جس نے کسی مُردہ زمین کو زندہ کیا وہ اسی کی ہے مگر خواہ مخواہ روک رکھنے والے کے لیے تین سال کے بعد کوئی حق نہیں ہے۔ یہ اعلان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ بعض لوگ زمینوں کو یوں ہی روک رکھتے تھے اور ان پر کوئی کام نہ کرتے تھے‘‘۔
یہ مسئلہ فقہائے اسلام کے درمیان متفق علیہ ہے۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف اس امر میں کہ آیا محض آبادکاری کا فعل کرلینے ہی سے کوئی شخص ارضِ مَوات کا مالک ہوجاتا ہے یا ثبوت ملکیت کے لیے حکومت کی منظوری و اجازت ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اس کے لیے حکومت کی منظور کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں احادیث بالکل صاف ہیں، لہٰذا آبادکار کا حق ملکیت ِ حکومت کی اجازت اور منظوری پر موقوف نہیں ہے، وہ خدا اور رسولؐ کے دیے ہوئے حق کی بنا پر مالک ہوجائے گا، اس کے بعد حکومت کا کام یہ ہے کہ جب معاملہ اس کے سامنے آئے تووہ اس حق کو تسلیم کرے اور نزاع کی صورت میں اس کا استقرار کرائے۔ امام مالکؒ بستی سے قریب کی زمینوں اور دُور دراز کی افتادہ اراضی میں فرق کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی زمینیں ان کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ رہیں دوسری قسم کی زمینیں تو ان کے لیے امام کے عطیہ کی شرط نہیں۔ وہ محض احیا سے آدمی کی مِلک ہوجاتی ہیں۔
اس معاملہ میں حضرت عمرؓ اور حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز ، دونوں کا طرزِعمل یہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی زمین کو اُفتادہ سمجھ کر آباد کرلیتا، اور بعد میں کوئی دوسرا شخص آکر ثابت کرتا کہ زمین اس کی تھی، تو اسے اختیار دیا جاتا تھا کہ یا تو آبادکار کے عمل کا معاوضہ ادا کر کے اپنی زمین لے لے، یا زمین کی قیمت لے کر حقِ ملکیت اس کی طرف منتقل کردے۔{ FR 5596 }
عطیۂ زمین من جانب ِ سرکار
پھر ’’مَوات‘‘ اور ’’خالصہ‘‘ دونوں طرح کی زمینوں میں سے بکثرت قطعات نبی اکرمa نے خود بھی لوگوں کو عطا فرمائے، اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ بھی برابر اس طرح کے عطیے دیتے رہے۔ اس کی بہت سی نظیریں حدیث و آثار کے ذخیرے میں موجود ہیں جن میں سے چند یہاں نقل کی جاتی ہیں:
۱- عروہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے بیان کیا کہ رسول اللہa نے انھیں اور حضرت عمرؓ بن خطاب کو چند زمینیں عطا کی تھیں۔ پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں حضرت زبیرؓ نے خاندانِ عمرؓ کے لوگوں سے ان کےحصے کی زمین خرید لی اور اس خریداری کی توثیق کے لیے حضرت عثمانؓ کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ عبدالرحمٰنؓ بن عوف کی شہادت یہ ہے کہ نبی اکرمa نے یہ زمینیں انھیں اور عمرؓ بن خطاب کو عطا کی تھیں۔ سو مَیں نے خاندانِ عمرؓ سے ان کا حصہ خرید لیا ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ عبدالرحمٰن سچی شہادت دینے والے آدمی ہیں خواہ وہ ان کے حق میں پڑتی ہو یا ان کے خلاف۔ (مسندامام احمد)
۲- علقمہ بن وائل اپنے والد (وائلؓ بن حُجر) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمa نے انھیں حضرموت میں ایک زمین عطا کی تھی۔ (ابوداؤد، ترمذی)
۳- حضرت ابوبکرؓ کی صاحب زادی حضرت اسما بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمaنے ان کے شوہر حضرت زبیرؓ کو خیبر میں ایک زمین عطا فرمائی تھی جس میں کھجور کے درخت بھی تھے اور دوسرے درخت بھی۔ اس کے علاوہ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ آپؐ نے انھیں ایک نخلستان بنی نضیر کی زمینوں میں سے بھی دیا تھا، نیز عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک اور وسیع خطۂ زمین بھی آپؐ نے حضرت زبیرؓ کو دیا تھا اور اس کی صورت یہ تھی کہ آپؐ نے ان سے فرمایا: ’’گھوڑا دوڑائو، جہاں جاکر تمھارا گھوڑا ٹھہرجائے گا وہاں تک کی زمین تمھیں دی جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے گھوڑا دوڑایا اور جب ایک جگہ جاکر گھوڑا ٹھہر گیا تو وہاں سے اُنھوں نے اپنا کوڑا آگے پھینک دیا۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا: اچھا، جہاں ان کا کوڑا گرا ہے وہاں تک کی زمین انھیں دے دی جائے۔ (بخاری، احمد، ابوداؤد، کتاب الخراج لابی یوسف، کتاب الاموال لابی عبید)
۴- عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ نبی اکرمa جب مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کو زمینیں عطا فرمائیں۔ (کتاب الخراج لابی یوسف)
۵- ابورافع بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمa نے ان کے خاندان والوں کو ایک زمین عطا کی تھی، مگر وہ اسے آباد نہ کرسکے اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں انھوں نے اسے آٹھ ہزار دینار میں فروخت کر دیا۔ (کتاب الخراج)
۶- ابنِ سیرین کی روایت ہے کہ آں حضرتa نے انصار میں سے ایک صاحب سلیط کو ایک زمین عطا فرمائی۔ وہ اس کے انتظام کے لیے اکثر باہر جاتے رہتے اور بعد میں آکر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کے پیچھے اتنا اتنا قرآن نازل ہوا اور رسول اللہa نے یہ یہ احکام دیے۔ اس سے ان کی بڑی دل شکنی ہوتی۔آخرکار انھوں نے ایک روز آں حضرتa کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یہ زمین میرے اور آپ کے درمیان حائل ہوگئی ہے۔ آپ اسے مجھ سے واپس لے لیں، چنانچہ وہ واپس لے لی گئی۔ بعد میں حضرت زبیرؓ نے اس کے لیے درخواست کی اور آپ نے وہ زمین انھیں دے دی۔(کتاب الاموال)
۷- بلالؓ بن حارث مزنی کی روایت ہے کہ نبی اکرمa نے اُن کو عقیق کی پوری زمین عطا فرمائی تھی۔ (کتاب الاموال)
۸- عدیؓ بن حاتم کی روایت ہے کہ نبی اکرمa نے فرات بن حیان عجلی کو یمامہ میں ایک زمین عطا کی تھی۔ (کتاب الاموال)
۹- عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ کے بیٹے نافع نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ بصرہ کے علاقے میں ایک زمین ہے جو نہ تو اراضی ٔ خراج میں شامل ہے اور نہ مسلمانوں میں سے کسی کا مفاد اس سے وابستہ ہے۔ آپ وہ مجھے عطا کردیں، میں اپنے گھوڑوں کے لیے اس میں چارا کی کاشت کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گورنر ابوموسیٰ اشعری کو فرمان لکھا کہ اگر اس زمین کی کیفیت وہی ہے جو نافع نے مجھ سے بیان کی ہے تو وہ انھیں دے دی جائے۔ (کتاب الاموال)
۱۰- موسیٰ بن طلحہؓ کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں زبیرؓ بن عوام، سعدؓ بن ابی وقاص، عبداللہ بن مسعودؓ، اُسامہ بن زید، خبابؓ بن اَرت ، عمارؓ بن یاسر، اور سعدؓ بن مالک کو زمینیں عطا کی تھیں۔ (کتاب الخراج، کتاب الاموال)
۱۱- عبداللہ بن حسنؓ کی روایت ہے کہ حضرت علیؓ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے انھیں ینُبع کا علاقہ عطا کیا تھا۔ (کنزالعمال)
۱۲- امام ابویوسف معتبر حوالوں سے روایت کرتے ہیںکہ حضرت عمرؓ نے ان سب زمینوں کو خالصہ قرار دیا تھا، جو کسریٰ اور آلِ کسریٰ نے چھوڑی تھیں، یا جن کے مالک بھاگ گئے تھے، یا جنگ میں مارے گئے تھے، یا جو دلدل، سیلاب اور جھاڑیوں کے نیچے آگئی تھیں۔ پھر جن لوگوں کو بھی آپ زمینیں عطا کرتے تھے انھی اراضی میں سے کرتے تھے۔ (کتاب الخراج)
عطیۂ زمین کے بارے میں شرعی ضابطہ
یہ عطائے زمین کا طریقہ محض شاہانہ بخشش و اَنعام کی نوعیت نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے چند قواعد تھے جو ہمیں احادیث و آثار میں ملتے ہیں:
۱- پہلا قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص زمین لے کر اس پر کچھ کام نہ کرے اس کا عطیہ منسوخ سمجھا جائے گا۔ اس کی نظیر میں امام ابویوسف یہ روایت لاتے ہیں کہ نبی اکرمa نے قبیلۂ مُزینہ اور جُہینہ کے لوگوں کو کچھ زمین دی تھی ۔ مگر انھوں نے وہ بے کار چھوڑ دی۔ پھر اور لوگ آئے اور انھوں نے اسے آباد کرلیا۔ اس پر مزینہ اور جُہینہ کے لوگ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں دعویٰ لے کر آئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا: اگر یہ میرا یا ابوبکرؓ کا عطیہ ہوتا تو مَیں اسے منسوخ کردیتا، لیکن یہ عطیہ تو نبی اکرمa کا ہے، اس لیے مَیں مجبور ہوں۔ البتہ قانون یہی ہے کہ:
من کانت لہ ارض ثم ترکھا ثلث سنین فلم یعمرھا نعمرھا قومٌ اٰخرون فھم احق بھا
’’جس کے پاس ایک زمین ہو اور وہ اسے تین برس تک بے کار ڈال رکھے اور آباد نہ کرے، پھر کچھ دوسرےلوگ آکر اسے آباد کرلیں تو وہی اس زمین کے زیادہ حق دار ہیں‘‘۔
۲- دوسرا قاعدہ یہ تھا کہ جو عطیہ صحیح طور پر استعمال میں نہ آرہا ہو اس پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس کی نظیر میں ابوعبید نے کتاب الاموال میں اور یحییٰ بن آدم نے الخراج میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرمa نے بلال بن حارثؓ مُزنی کو پوری وادیٔ عقیق دے دی تھی۔ مگر وہ اس کے بڑے حصے کو آباد نہ کرسکے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ان سے کہا کہ رسول اللہa نے یہ زمین تمھیں اس لیے نہیں دی تھی کہ تم نہ خود اسے استعمال کرو اور نہ دوسروں کو استعمال کرنے دو۔اب تم اس میں سے بس اتنی رکھ لو جسے استعمال کرسکو۔ باقی ہمیں واپس کرو تاکہ ہم اس کو مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ بلال بن حارثؓ نے اس سے انکار کیا، حضرت عمرؓ نے پھر اصرار کیا۔ آخرکار جتنا رقبہ ان کے زیراستعمال تھا اسے چھوڑ کر باقی پوری زمین آپ نے ان سے واپس لے لی اور دوسرے مسلمانوں میں اس کے قطعات بانٹ دیے۔
۳- تیسرا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت صرف اراضی مَوات اور اراضی خالصہ ہی میں سے زمینیں عطا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ حق اسے نہیں ہے کہ ایک شخص کی زمین چھین کر دوسرے کو دے دے۔ یا اصل مالکان اراضی کے سر پر خواہ مخواہ ایک شخص کو جاگیردار یا زمین دار بناکر مسلط کردے اور اسے مالکانہ حقوق عطا کر کے اصل مالکوں کی حیثیت اس کے ماتحت کاشتکاروں کی سی بنا دے۔
۴- چوتھا قاعدہ یہ تھا کہ حکومت زمینیں انھی لوگوں کو دے گی جنھوں نے فی الحقیقت اجتماعی مفاد کے لیے کوئی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہو، یا جن سے اب اس نوعیت کی کوئی خدمت متعلق ہو، یا جنھیں عطیہ دینا کسی نہ کسی طور پر اجتماعی مفاد کے لیے مناسب ہو۔ رہیں شاہانہ غلط بخشیاں جن سے ڈوم ڈھاڑیوں اور خوشامدی لوگوں کو نوازا گیا ہو، یا وہ عطیے جو ظالموں اور جباروں نے اجتماعی مفاد کے برعکس خدمات انجام دینے والوں کو دیے ہوں، تو وہ کسی طرح جائز عطایا کی تعریف میں نہیں آتے۔
جاگیروں کے معاملہ میں صحیح شرعی رویہ
مؤخر الذکر دونوںاصولوں کی بنیاد اس پورے طرزِعمل پر قائم ہے جو نبی اکرمa اور آپؐ کے خلفا نے برتا تھا۔ اس کی تشریح امام ابویوسفl اپنی کتاب الخراج میں اس طرح فرماتے ہیں:
’’امامِ عادل کو حق ہے کہ جو مال کسی کی مِلک نہ ہو اور جس کا کوئی وارث بھی نہ ہو اس میں سے ان لوگوں کو عطیے اور انعام دیے جن کی اسلام میں خدمات ہوں… جس شخص کو وُلاۃِ مہدیین (راہِ راست پر چلنے والے فرماں روائوں) نے کوئی زمین عطا کی ہو اسے واپس لینے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ لیکن جو زمین کسی حاکم نے ایک سے چھینی اور دوسرے کو بخشی تو اس کی حیثیت اس مال کی سی ہے جو ایک سے غصب کیا گیا اور دوسرے کو عطا کر دیا گیا‘‘۔
کچھ دُور آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’پس جن جن اقسام کی زمینوں کا ہم نے ذکر کیا ہے کہ امام انھیں عطا کرسکتا ہے ان میں سے جو زمین بھی عراق، عرب، الجبال اور دوسرے علاقوں میں ’’وُلاۃِ مہدیین‘‘ نے کسی کو دی ہے، بعد کے خلفا کے لیے حلال نہیں ہے کہ اسے واپس لیں یا ان لوگوں کے قبضے سے نکالیں جن کے پاس ایسی زمینیں اس وقت موجود ہیں، خواہ وہ اُنھوں نے وراثت میں پائی ہوں یا وارثوں سے خریدی ہوں‘‘۔
آخر میں اس بحث کو ختم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس یہ نظیریں ثابت کرتی ہیں کہ نبی a نے خود بھی زمینیں عطا کی ہیں اور آپؐ کے بعد خلفا بھی دیتے رہے ہیں۔ آں حضرتa نے جسے بھی زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ ایسا کرنے میں صلاح اور بہتری ہے، مثلاً کسی نومسلم کی تالیف ِ قلب یا زمین کی آبادی۔ اسی طرح خلفائے راشدینؓ نے بھی جسے زمین دی یہ دیکھ کر دی کہ اس نے اسلام میں کوئی عمدہ خدمت انجام دی ہے یا وہ اعدائے اسلام کے مقابلہ میں کارآمد ہوسکتا ہے ، یا یہ کہ ایسا کرنے میں بہترین ہے‘‘۔ (کتاب الخراج، ص ۳۲-۳۵)
یہ تصریحات امام ابویوسفؒ نے دراصل عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے اس سوال کے جواب میں فرمائی ہیں کہ جاگیروں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ایک فرماں روا کہاں تک جاگیریں عطا اور ضبط کرنے کا مجاز ہے؟ اس کا جو کچھ جواب امام صاحب نے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے عطائے زمین بجائے خود تو ایک جائز فعل ہے، مگر نہ سب زمین دینے والے یکساں ہیں اور نہ سب لینے والے۔ ایک عطیہ وہ ہے جو عادل، متدین، راست رو ور خدا ترس حکمرانوں نے دیا ہو۔ اعتدا ل کے ساتھ دیا ہو۔ دین اور ملّت کے سچّے خادموں کو، یا کم از کم مفید اور کارآمد لوگوں کو دیا ہو۔ کسی ایسی غرض کے لیے دیا ہو جس کا فائدہ بحیثیت ِ مجموعی ملک اور ملّت ہی کی طرف پلٹتا ہو اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کے وہ مجاز تھے۔ دوسرا عطیہ وہ ہے جو ظالموں، جباروں اور نفس پرستوں نے دیا ہو۔ بُرے لوگوں کو دیا ہو، بُری اغراض کے لیے دیا ہو۔ بے تحاشا دیا ہو اور ایسے مال میں سے دیا ہو جس کے دینے کا اُنھیں حق نہ تھا۔ یہ دو مختلف طرح کے عطیے ہیں اور دونوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ پہلا عطیہ جائز ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اسے برقرار رکھا جائے۔ دوسرا عطیہ ناجائز ہے اور انصاف چاہتا ہے کہ اسے منسوخ کیا جائے۔ بڑا ظالم ہے وہ جو دونوں طرح کے عطیوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دے۔
حقوقِ ملکیت کا احترام
یہ شواہد و نظائر اُس پورے دور کے عمل درآمد کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس میں قرآن کے منشا کی تفسیر خودقرآن لانے والے نے اور اس کے براہِ راست شاگردوں نے اپنے اقوال اور اعمال میں کی تھی۔ اس نقشے کو دیکھنے کے بعد کسی شخص کے لیے اس طرح کا کوئی شبہ تک کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ زمین کے معاملہ میں اسلام کے پیش نظر یہ اُصول تھا کہ اسے شخصی ملیکتوں سے نکال کر اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے۔اس کے بالکل برعکس اس نقشے سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نگاہ میں زمین سے انتفاع کی فطری اور صحیح صورت صرف یہی ہے کہ وہ افراد کی ملکیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمa نے محض اتنا ہی نہیں کیا کہ اکثروبیش تر حالات میں سابق ملکیتوں ہی کو برقرار رکھا، بلکہ جن صورتوں میں آپ نے پچھلی ملکیتیں منسوخ کیں اُن میں بھی نئی انفرادی ملکیتیں پیدا کردیں، اور آیندہ کے لیے غیرمملوکہ اراضی پر نئی ملکیتوں کے قیام کا دروازہ کھول دیا، اور خود سرکاری املاک کو بھی افراد میں تقسیم کر کے انھیں حقوقِ ملکیت عطا فرمائے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ سابق نظامِ ملکیت کو محض ایک ناگزیر بُرائی کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک اصولِ برحق کی حیثیت سے اسے باقی رکھا گیا اور آیندہ کے لیے اسی کو جاری کیا گیا۔
اس کا مزید ثبوت وہ احکام ہیں جو نبی اکرمa نے حقوقِ ملکیت کے احترام کے متعلق دیے ہیں۔ مسلم نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ کے بہنوئی سعید بن زیدؓ پر ایک عورت نے مروان بن حکم کے زمانہ میں دعویٰ دائر کیا کہ انھوں نے میری زمین کا ایک حصہ ہضم کرلیا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت سعیدؓ نے مروان کی عدالت میں جو بیان دیا وہ یہ تھا کہ مَیں اس کی زمین کیسے چھین سکتا تھا جب کہ مَیں نے رسول اللہa کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ:
مَن اخذ شبرًا من الارض ظلمًا طُوِّقہ الٰی سبع ارضین
’’جس شخص نے بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لی اس کی گردن میں سات تہوں تک اُسی زمین کو طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا‘‘۔
اسی مضمون کی احادیث مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی نقل کی ہیں۔(مسلم، کتاب المساقات والمزارعہ، باب تحریم الظلم وغصب الارض)
ابوداؤد، نسائی اور ترمذی نے متعدد حوالوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی a نے فرمایا:
لیس لعِرقٍ ظَالمٍ حَقٌّ
’’دوسرے کی زمین میں بلااستحقاق آبادکاری کرنے والے کے لیے کوئی حق نہیں ہے‘‘۔
رافعؓ بن خدیج کی روایت ہے کہ حضورa نے فرمایا:
من زرع فی ارض قوم بغیر اذنھم فلیس لہٗ من الزرع شی ءٌ وَلَہٗ نفقتہٗ
’’جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کی وہ اس کھیتی پر تو کوئی حق نہیں رکھتا، البتہ اس کا خرچ اسے دلو ا دیا جائے گا‘‘۔(ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی)
عروہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ نبیa کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں ایک شخص نے ایک انصاری کی زمین میں کھجور کے درخت لگا دیے تھے۔ اس پر آں حضرتؐ نے فیصلہ دیا کہ وہ درخت اُکھاڑ کر پھینک دیے جائیں اور زمین اصل مالک کے حوالہ کی جائے۔ (ابوداؤد)
یہ احکام کس چیز کی شہادت دیتے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ زمین کی شخصی ملکیت کوئی بُرائی تھی جسے مٹانا مطلوب تھا مگر ناگزیر سمجھ کر مجبوراً برداشت کیا گیا؟ یا اس بات کی کہ یہ سراسر ایک جائز و معقول حق تھا جس کا احترام افراد اور حکومت دونوں پر فرض کر دیا گیا؟

شیئر کریں