اس ریاست میں حکمران اور اس کی حکومت کا اولین فریضہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام ِزندگی کو کسی رد وبدل کے بغیر جوں کا تُوں قائم کرے ، اور اسلام کے معیار اخلاق کے مطابق بھلائیوں کو فروغ دے اور برائیوں کو مٹائے ۔قرآن مجید میں اس ریاست کا مقصد وجود یہ بیان کیا گیا ہے کہ : الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿الحج:٤١﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہی قرآن کی رو سے امت مسلمہ کا مقصد وجود بھی ہے : وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ﴿البقرہ:١٤٣﴾ اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "”امت وسط”” بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ ﴿آل عمران:١١٠﴾ اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ علاہ بریں جس کام پر محمد ﷺ اور آپ ﷺ سے پہلے تمام انیباء مامور تھے وہ قرآن مجید کی رو سے یہ تھا کہ (أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ)اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔””غیر مسلم دنیا کے مقابلے میں آپ ﷺ کی ساری جدوجہد صرف اس غرض کے لئے تھی کہ (وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ ۚ الانفال:39) اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے ۔”” اور تمام انبیاء کی امتوں کی طرح آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی اللہ تعالی کا حکم یہ تھا کہ (وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴿البینہ:٥﴾اور اُن کو اِس کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، بالکل یکسو ہو کر۔”” اس لئے آپ ﷺ کی قائم کردہ ریاست کا اصل کام ہی یہ تھا کہ دین کے پورے کے پورے نظام کو قائم کرے ، اور اس کے اندر کوئی ایسی آمیزش نہ ہونے دے جو مسلم معاشرے میں دورنگی پیدا کر نے والی ہو۔ اس آخری نکتے ک بارے میں نبی ﷺ نے اپنے اصحاب اور جانیشینوں کو سختی کے ساتھ متنبہ فرمادیا کہ : من احد ث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد۔[34] "”جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی باب نکالے جو اس کی جنس سے نہ ہو اس کی بات مردود ہے ۔”” ایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ۔[35] "”خبردار ! نرالی باتوں سے بچنا ، کیونکہ ہر نرالی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ۔”” من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ۔[36] "”جس نے کسی بدعت نکالنے والے کی توقیر کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدددی ۔”” اسی سلسلے میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہمیں ملتا ہے کہ تین آدمی خدا کو سب سے زیادہ ناپسند ہیں ، اور ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو : مبتغ فی الاسلام سنۃ الجاھلیۃ ۔[37] "”اسلام میں جاہلیت کا کوئی طریقہ چلانا چاہے ۔