ہر کام کا ایک مقصد
برادرانِ اسلام! ہر کام جو انسان کرتا ہے، اس میں دو چیزیں لازمی طور پر ہوا کرتی ہیں۔ ایک چیز تو وہ مقصد ہے جس کے لیے کام کیا جاتا ہے، اور دوسری چیز اس کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے کے فعل کو لیجیے۔ کھانے سے آپ کا مقصد زندہ رہنا اور جسم کی طاقت کو بحال رکھنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ آپ نوالے بناتے ہیں، منہ میں لے جاتے ہیں، دانتوں سے چباتے ہیں اور حلق کے نیچے اتارتے ہیں۔ چونکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ کارگر اور سب سے زیادہ مناسب طریقہ یہی ہو سکتا تھا، اس لیے آپ نے اسی کو اختیار کیا۔ لیکن آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اصل چیز وہ مقصد ہے جس کے لیے کھانا کھایا جاتا ہے، نہ کہ کھانے کے فعل کی یہ صورت۔
اگر کوئی شخص لکڑی کا برادہ یا راکھ یا مٹی لے کر اس کے نوالے بنائے اور منہ میں لے جائے اور دانتوں سے چبا کر حلق سے نیچے اتار لے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ یہی نا کہ اس کا دماغ خراب ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ احمق کھانے کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتا اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ بس فعلِ خوردن کے ان چاروں ارکان کو ادا کر دینے ہی کا نام کھانا کھانا ہے۔
اسی طرح آپ اس شخص کو بھی پاگل قرار دیں گے جو روٹی کھانے کے بعد فوراً ہی حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دیتا ہو، اور پھر شکایت کرتا ہو کہ روٹی کھانے کے جو فائدے بیان کیے جاتے ہیں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتے، بلکہ میں تو الٹا روز بروز دبلا ہوتا جا رہا ہوں اور مر جانے کی نوبت آ گئی ہے۔ یہ احمق اپنی اس کمزوری کا الزام روٹی اور کھانے پر رکھتا ہے حالانکہ حماقت اس کی اپنی ہے۔ اس نے اپنی نادانی سے یہ سمجھ لیا کہ کھانے کا فعل جتنے ارکان سے مرکب ہے بس ان کو ادا کر دینے ہی سے زندگی کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس نے سوچا کہ اب روٹی کا بوجھ اپنے معدے میں کیوں رکھو؟ کیوں نہ اسے نکال پھینکا جائے تاکہ پیٹ ہلکا ہو جائے۔ کھانے کے ارکان تو میں ادا کر ہی چکا ہوں۔
یہ احمقانہ خیال جو اس نے قائم کیا اور پھر اس کی پیروی کی، اس کی سزا بھی تو آخر اسی کو بھگتنی چاہیے۔ اس کو جاننا چاہیے تھا کہ جب تک روٹی پیٹ میں جا کر ہضم نہ ہو، اور خون بن کر سارے جسم میں پھیل نہ جائے اس وقت تک زندگی کی طاقت حاصل نہیں ہو سکتی۔ کھانے کے ظاہری ارکان بھی اگرچہ ضروری ہیں، کیوں کہ ان کے بغیر روٹی معدے تک نہیں پہنچ سکتی، مگر محض ان ظاہری ارکان کے ادا کر دینے سے کام نہیں چل سکتا۔ ان ارکان میں کوئی جادو بھرا ہوا نہیں ہے کہ انھیں ادا کرنے سے بس طلسماتی طریقے پرآدمی کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہو۔ خون پیدا کرنے کے لیے تو اللہ نے جو قانون بنایا ہے اسی کے مطابق وہ پیدا ہو گا۔ اس کو توڑو گے تو اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے۔
ظاہر کو حقیقت سمجھنے کے نتائج
یہ مثال جو اس تفصیل کے ساتھ میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے اس پر آپ غور کریں تو آپ کی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ آج آپ کی عبادتیں کیوں بے اثر ہو گئی ہیں؟ جیسا کہ میں پہلے بھی آپ سے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ آپ نے نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں ہی کو اصل عبادت سمجھ رکھا ہے اورآپ اس خیالِ خام میں مبتلاہو گئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان پوری طرح ادا کر دیے اس نے بس اللہ کی عبادت کر دی۔
آپ کی مثال اُسی شخص کی سی ہے جو کھانے کے چاروں ارکان، یعنی نوالے بنانا، منہ میں رکھنا، چبانا، حلق سے نیچے اتار دینا، بس انھی چاروں کے مجموعے کو کھانا سمجھتا ہے، اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس نے یہ چارارکان ادا کر دیے اس نےکھانا کھا لیا اور کھانے کے فائدے اس کو حاصل ہونے چاہییں، خواہ اس نے ان ارکان کے ساتھ مٹی اور پتھر اپنے پیٹ میں اتارے ہوں، یا روٹی کھا کر فوراً قے کر دی ہو۔
اگر حقیقت میں آپ لوگ اس حماقت میں مبتلا نہیں ہو گئے ہیں تو مجھے بتائیے یہ کیا ماجرا ہے کہ جو روزے دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہے؟ غیبت کس طرح کرتا ہے؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہے؟ اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق کیسے مار کھاتا ہے؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کے کام کس طرح کر لیتا ہے؟ اور پھر یہ سب کام کرکے بھی اپنے نزدیک یہ کیسے سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی ہے؟ کیا اس کی مثال اس شخص کی سی نہیں ہے جو راکھ اور مٹی کھاتا ہے اور محض کھانے کے چار ارکان ادا کر دینے کو سمجھتا ہے کہ کھانا اس کو کہتے ہیں؟
رمضان کے بعد پھر بے قیدی
پھر مجھے بتائیے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباً ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہو جاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے، اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اوررات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس قدر بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، مگر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ او ر پرہیز گاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے؟ اور نفسانیت میں کیا کمی آ جاتی ہے؟
عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ
سوچیے اور غور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہو گیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہو اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اگر جان پربھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تاّمل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی صورت ہے، اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو، اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں، مگر خداناراض ہوتا ہو اس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں، اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں، مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کر سکیں۔
یہ طاقت اسی طرح پیدا ہو سکتی تھی کہ آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خداکے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے، مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور ان صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ کھولنے کے بعد ہی دن بھرکی پرہیز گاری کواُ گل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ رمضان اور اس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس ان کی ظاہری شکل پوری کر دینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہو جائے جو حقیقت میں روزے سے حاصل ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ معدے میں جا کر ہضم نہ ہو، اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اسی طرح روزے سے بھی رُوحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل ودماغ کے اندر اس کو اترنے اور خیال، نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔
روزہ___ متقی بننے کا ذریعہ
یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ’’یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے، شاید کہ تم متقی وپرہیز گار بن جائو۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیز گار بن جائو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے، جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔
روزے کے مقاصد
۱۔ جھوٹ سے بچنا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے غافل ہو کر بھوکا پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں۔ چنانچہ فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ۔ (بخاری)
جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سرکار رسالت مآب a نے فرمایا:
کَمْ مِّنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الظَّمَأُ وَکَمْ مِّنْ قَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلَّا السَّھَرُ۔ (الدارمی)
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رَت جگے کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔
ان دونوں حدیثوں کا مطلب بالکل صاف ہے۔ ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے، بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے، اور اصل عبادت ہے ’’خوفِ خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا، اور محبتِ الٰہی کی بنا پر ہر اس کام کے لیے شوق سے لپکنا جس میں محبوب کی خوشنودی ہو، اور نفسانیت سے بچنا، جہاں تک بھی ممکن ہو‘‘۔ اس عبادت سے جو شخص غافل رہا اُس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت کب تھی کہ بارہ چودہ گھنٹے کے لیے اس سے کھانا پینا چھڑا دیتا؟
۲۔ ایمان واحتساب
روزے کے اصل مقصد کی طرف سرکاررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح توجہ دلاتے ہیں کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ (بخاری‘ مسلم)
یعنی جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے۔
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے متعلق ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہونا چاہیے وہ عقیدہ ذہن میں پوری طرح تازہ رہے، اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ ہی کی رضا کا طالب ہو، اور ہر وقت اپنے خیالات اور اپنے اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں وہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں چل رہا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ جو شخص رمضان کے پورے روزے رکھ لے گا وہ اپنے پچھلے گناہ بخشوا لے جائے گا، اس لیے کہ اگر وہ کبھی سرکش ونافرمان بندہ تھا بھی تو اب اس نے اپنے مالک کی طرف پوری طرح رجوع کر لیا، اور اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَاذَنْبَ لَہٗ ’’گناہ سے توبہ کرنے والاایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔‘‘
۳۔گناہوں سے بچنے کی ڈھال
دوسری حدیث میں آیا ہے:
اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ وَاِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ اَحَدِکُمْ فَلاَیَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّی امْرُئٌ صَائِمٌ۔ (متفق علیہ)
روزے ڈھال کی طرح ہیں (کہ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچنے کے لیے ہے اسی طرح روزہ بھی شیطان کے وار سے بچنے کے لیے ہے)، لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ (اس ڈھال کو استعمال کرے اور) دنگے فساد سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے، یا اس سے لڑے تو اس کو کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں روزے سے ہوں (مجھ سے یہ توقع نہ رکھو کہ تمھارے اس مشغلے میں حصہ لوں گا)۔
۴۔نیکی کی حرص
دوسری احادیث میں حضور a نے بتایا ہے کہ روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہییں اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چاہیے۔ خصوصاً اس حالت میں اس کے اندر اپنے دوسرے بھائیوں کی ہمدردی کا جذبہ تو پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو جانا چاہیے، کیوں کہ وہ خود بھوک پیاس کی تکلیف میں مبتلا ہو کر زیادہ اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے کہ دوسرے بندگانِ خدا پر غریبی اور مصیبت میں کیا گزرتی ہو گی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ خود سرکار رسالت مآب a رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہو جاتے تھے۔ کوئی سائل اس زمانے میں حضور a کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا، اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔
۵۔ افطار کرانے کا ثواب
ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضور a نے فرمایا:
مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَانَ لَہٗ مَغْفِرَۃٌ لِّذُنُوْبِہٖ وَعِتْقُ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ وَکَانَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُّنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْیٌٔ۔ (البیھقی)
جس نے رمضان میں کسی روزے دار کو افطارکرایا تو یہ اس کے گناہوں کی بخشش کا اور اس کی گردن کو آگ سے چھڑانے کا ذریعہ ہو گا اور اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس روزے دار کو روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی ہو۔