اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء پر وقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے ۔ وہ خود اپنے ہل شوری کے درمیان بیٹھتے اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے ۔ ان کی کوئی سرکاری پارٹی نہ تھی ، نہ ان کے خلا ف کسی پارٹی کا کوئی وجود تھا ۔ آزادانہ فضا میں ہر شریک مجلس اپنے ایمان وضمیر کے مطابق رائے دیتا تھا ۔تمام معاملات اہل حل وعقد کے سامنے بے کم وکاست رکھ دیے جاتے تھے اور کچھ چھپا کر نہ رکھا جاتا۔فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ کسی کے رعب واثر ، یا کسی کے مفاد کی پاسداری ، یا کسی جتھا بندی کی بنیاد پر ۔ پھر یہ خلفاء اپنی قوم کا سامناصرف شوری کے واسطے ہی سے نہ کرتے تھے ، بلکہ براہ ِ راست ہر روز پانچ مرتبہ نماز باجماعت میں ، ہر ہفتے جمعہ کے اجتماع میں ، ہر سال عیدین اور حج کے اجتماعات میں ان کو قوم سے اور قوم کو ان سے سابقہ پیش آتا تھا ۔ ان کے گھر عوام کے درمیان تھے اور کسی حاجب ودربان کے بغیر ان کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے ۔وہ بازاروں میں کسی محافظ دستے اور ہٹو بچو کے اہتمام کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے ۔ ان تمام مواقع پر ہر شخص کو انھیں ٹوکنے ، ان پر تنقید کرنے ، اور ان سے محاسبہ کرنے کی کھلی آزادی تھی، اور اس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہ دیتے تھے ، بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں جیسا، کہ پہلے گزر چکا ہے ، علی الاعلان کہہ دیا تھا کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو، اور ٹیڑھا ہوجاوں تو مجھے سیدھا کردو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں اس رائے کا اظہار کیا کہ کسی شخص کو نکاح میں چار سو درہم سے زیادہ مہر باندھنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ ایک عورت نے انھیں وہیں ٹوک دیا کہ آپ کو ایسا حکم دینے کا حق نہیں ہے ۔ قرآن ڈھیر سا مال ( قنطار ) مہر میں دینے کی اجازت دیتا ہے ، آپ اس کی حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فورا اپنی رائے سے رجوع کرلیا ۔[47]ایک موقع پر بھرے مجمع میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان سے محاسبہ کیا کہ سب کے حصے میں ایک ایک چادر آئی ہے ، آپ نے دو چادریں کیسے لے لیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش کر دی کہ دوسری چادر انھوں نے اپنے والد کو مستعار دی ہے ۔[48]ایک دفعہ اپنی مجلس میں انھوں نے لوگوں سے پوچھا : اگر میں بعض معاملات میں ڈھیل اختیار کرلوں تو تم کیا کرو گے ۔حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر آپ ایس کریں گے تو ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کردیں گے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تب تو تم کام کے لوگ ہو۔ [49]سب سے زیادہ سخت تنقیدوں سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سابقہ پیش آیا ، او ر انھوں نے کبھی کسی کا منہ زبردستی بند کرنے کی کوشش نہ کی ، بلکہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقیدوں کے جواب میں برسر عام اپنی صفائی پیش کی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں خوارج کی انتہائی بدزبانیوں کو بڑے ٹھنڈے دل سے برداشت کیا ۔ ایک مرتبہ خارجی ان کے پاس گرفتار کرکے لائے گئے جو علی الاعلان ان کو گالیاں دے رہے تھے اور ان میں سے ایک برسر عام کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم ! میں علی رضی اللہ عنہ کو قتل کردوں گا ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور اپنے آدمیوں سے فرمایا کہ ان کی بدزبانی کا جواب تم چاہو تو بدزبانی سے دے لو ، مگر جب وہ عملا کوئی باغیانہ کاروائی نہیں کرتے ، محض زبانی مخالفت کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس کی وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالا جائے ۔ [50] خلافت راشدہ کا یہ دور جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ، ایک روشنی کا مینار تھا جس کی طرف بعد کے تمام ادوار میں فقہاء ومحدثین اور عام دین دار مسلمان ہمیشہ دیکھتے رہے اور اسی کو اسلام کے مذہبی ، سیاسی ، اخلاقی اور اجتماعی نظام کے معاملے میں معیار سمجھتے رہے ۔ [1] الطبرانی ، تاریخ الامم والملوک جلد ، 2 صفحہ 618 مطبع الاستقامہ قاہر ہ مصر 1939 ھ [2] اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس میں اچانک اٹھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام تجویز کیا تھا اور ہاتھ بڑھا کر فورا ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی ۔ ان کو خلیفہ بنان کے معاملے میں پہلے سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا ۔ [3] بخاری ، کتاب المحاربین ، باب 16 ۔ مسند احمد جلد 1 حدیث نمبر : 391 طبع ثالث ، دار المعارف ،مصر 1949 ۔ مسند احمد کی روایت میں حضرت عمر رض کے الفاظ یہ ہیں ۔”” جس شخص نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت کی اس کی کوئی بیعت نہیں اور نہ ہی اس شخص کی کوئی بیعت ہے جس سے اس نے بیعت کی ۔”” ایک اور روایت میں حضرت عمر رض کے الفاظ یہ بھی آئے ہیں کہ "” جس شخص کو مشورے کے بغیر امارت دی جائے اس کے لیے اس کا قبول کرنا حلال نہیں ہے ۔ ( ابن حجر ، فتح الباری ۔جلد 2 صفحہ نمبر : 125 المطبع الخیریہ ، قاہر ہ 1325ھ) [4] الطبری ، جلد 3 صفحہ :292 ۔ ابن الاثیر جلد 3 صفحہ نمبر :34۔35 ادارہ الطباعۃ المنیریہ ، مصر 1356ھ ۔ طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 344 دارِ صادر بیروت 1957 ۔فتح الباری جلد 7 صفحہ 49۔ [5] الطبری جلد 3 صفحہ 292 ۔ ابن الاثیر جلد :3 صفحہ 36 ۔البدایہ والنہایہ جلد :7 صفحہ :146 [6] ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد : 1 صفحہ نمبر : 41 [7] الطبری جلد 3 صفحہ : 450 [8] الطبری جلد :3 صفحہ : 112 ۔ المسعودی ، مروج الذہب ، جلد 2 ص : 42 مطبع البہیہ مصر 1346ھ [9] ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد : 8 صفحہ 13تا 14 مطبع السعادۃ مصر ۔ المسعودی جلد : 2 صفحہ 42 [10] طبقات ابن سعد ، جلد 4 صفحہ نمبر : 113 [11] سنن الدارمی ، باب الفتیا وما فیہ من الشدۃ [12] کنز العمال جلد 5 صفحہ 2281 [13] امام ابویوسف ، کتاب الخراج صفحہ :25 [14] طبقات ابن سعد ۔ جلد : 3 صفحہ 306۔307 [15] کنز العمال جلد :5 صفحہ 2280تا 2285 [16] ابن کثیر ، البدایہ النہایہ جلد:7 صفحہ 134 [17] امام ابویوسف ، کتاب الخراج صفحہ :117 [18] ابن سعد جلد 3 صفحہ 28 [19] ابن کثیر ، جلد 8 صفحہ 3 [20] ابن سعد جلد 3 صفحہ 38 [21] ابن سعد جلد 3 صفحہ 28۔ابن کثیر جلد : 8 صفحہ 3 [22] ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغۃ جلد : 1 صفحہ 182 دارالکتب العربیہ ، مصر 1329ھ [23] ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد : 1 صفحہ 71 حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ پر کوئی قرض تھا جسے ادا کرنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تھا ، اس لیے وہ ناراض ہوکر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جاملے ۔الاصابہ جلد : 3 صفحہ 487 مطبع مصطفی محمد ، مصر 1939عیسوی ۔ [24] الطبری ، جلد : 2 صفحہ 450 ۔ابن ہشام ۔ السیرۃ النبویہ جلد : 4 صفحہ 311 مطبع مصطفی البابی ، مصر 1936 ۔کنز العمال جلد 5 احادیث نمبر : 2261۔2264۔2278۔2291۔2299، [25] امام ابویوسف ، کتاب الخراج صفحہ :117 [26] کنز العمال جل”