یہ خلاصہ جو آپ نے میرے کلام سے نکالا ہے اس کا پہلا جز ہی غلط ہے۔ میرے ان مضامین میں، جن سے آپ یہ خلاصہ نکال رہے ہیں، یہ بات کہاں لکھی ہے کہ ’’نبی اکرمa نے ۲۳ برس کی پیغمبرانہ زندگی میں قرآن کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا، یا عملًا کیا، اسے سُنّت رسول اللّٰہa کہتے ہیں۔‘‘ میں نے تو اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ حضورa کی پیغمبرانہ زندگی کا وہ پورا کام جو آپa نے ۲۳ سال میں انجام دیا، قرآن کے منشا کی توضیح وتشریح ہے، اور یہ سُنّت قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ (یعنی اللّٰہ تعالیٰ) کے قانونِ برتر کی تشکیل وتکمیل کرتی ہے، اور یہ سارا کام چوں کہ آں حضورa نے نبی کی حیثیت سے کیا تھا ،لہٰذا اس میں آپa اسی طرح خدا کی مرضی کی نمایندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن۔ اگر آپ دوسروں کی عبارتوں میں خود اپنے خیالات پڑھنے کے عادی نہیں ہیں تو آپ کے سوال نمبر ۱ کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اسے پڑھ کر خود دیکھ لیں کہ میں نے کیا کہا تھا اور آپ نے اسے کیا بنا دیا۔
پھر اس سے جو دو نتیجے آپ نے نکالے ہیں، وہ دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے میری ان عبارتوں میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے ایک نئی بحث کا راستہ تلاش کیا ہے، کیوں کہ نہ آپ کا پہلا سوال ان مسائل سے متعلق تھا، نہ میں نے اپنے مخصوص مضامین کا حوالہ آپ کو اس لیے دیا تھا کہ آپ ان مسائل کا جواب ان میں تلاش کریں۔ تاہم میں آپ کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا کہ آپ کے چھیڑے ہوئے سوالات کا جواب دینے سے میں نے گریز کیا ہے، اس لیے ان دونوں نتیجوں کے متعلق مختصراً عرض کرتا ہوں۔