(د)میرے نزدیک آل مسلم پارٹیزکنونشن میںجب راست اقدام یاڈائریکٹ ایکشن کی تجویزپیش کی گئی، اس وقت ان شرائط میںسے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ (۱)مطالبات کے حق میںجذباتی تقریریںتوبہت کی گئی تھیںمگرمسلم اکثریت کامقدمہ ایسے مضبوط دلائل کے ساتھ تیارنہیںکیاگیاتھاجس کے مقابلے میںفریق مخالف تقریباً غیرمسلح ہو کررہ جائے۔ (۲)پنجاب اوربہاولپورکی حدتک توثابت ہوچکاتھاکہ وہ ان مطالبات کے بالاتفاق حامی ہیںمگرنہ توسندھ سرحد‘بلوچستان اوربنگال کی تائیدپوری طرح حاصل کی جا سکی تھی اورنہ خودپنجاب وبہاولپورکے تعلیم یافتہ طبقے کواچھی طرح مویّد بنایا جاسکا تھا۔
(۳)آئینی تدابیرکادروازہ بندبھی نہیںہواتھا۔ان تدابیرکواستعمال کرتے ہوئے کچھ بہت زیادہ مدت بھی نہیںگزری تھی اورساری تدبیریںآخری حدتک آزمائی بھی نہ جاچکی تھیںاس لیے اصولاًاس وقت تک ڈائریکٹ ایکشن کاآخری چارۂ کاراستعمال کرنے کے لیے کوئی جائزوجہ پیدانہ ہوئی تھی۔
(ہ)اس اصولی حیثیت کے علاوہ میرے نزدیک عملی حیثیت سے بھی یہ اقدام سخت غیرمناسب تھا۔جیساکہ میںاوپرضمنی پیراگراف (د)میںبیان کرچکاہوںاس وقت صرف پنجاب اورکسی حدتک بہاولپورکے عوام کوجذباتی تقریریںپلاپلاکران مطالبات کے حق میںجدوجہدکرنے پرآمادہ کرلیاگیاتھامگرملک کے دوسرے صوبے اچھی طرح یہ بھی نہ جانتے تھے کہ یہ معاملہ فی الواقع ہے کیا؟اورخودپنجاب وبہاولپورمیںبھی اہل دماغ طبقہ اس مسئلے کونہ پوری طرح سمجھاتھااورنہ مطالبات کی صحت پرمطمئن تھا۔اس صورت میںمحض ان دوصوبوںکے عوام کولے کرڈائریکٹ ایکشن کربیٹھناصریحاًایک غیردانش مندانہ فعل تھا جس کانتیجہ میرے نزدیک یہی ہوسکتاتھاکہ یہاںکے عوام بری طرح کچلے جائیںاورحکومت کویہاںکی سیاسی زندگی پربھی وہی موت جاری کرنے کاموقع مل جائے جواس سے پہلے صوبہ سرحدپرطاری کی جاچکی ہے۔