یہیں سے یہ سوال بھی حل ہوجاتا ہے کہ کسی ملک پر اسلامی نظام کی حکومت قائم ہوجانے کی صورت میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہو گی‘ جو کسی دوسرے عقیدہ و مسلک کے متبع ہوں؟ اسلام کا جہاد لوگوں کے عقیدہ و مسلک‘ ان کے طریقِ عبادت اور قوانینِ معاشرت سے تعرض نہیں کرتا۔ وہ ان کو پوری آزادی دیتا ہے کہ جس عقیدہ پر چاہیں‘ قائم رہیں۔۔۔ اور جس مسلک پر چاہیں‘ چلیں۔ البتہ وہ ان کے اس حق کوتسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ ان کی خاطر کسی ایسے طریقے پر حکومت کا نظام چلایا جائے‘ جو اسلام کی نگاہ میں فاسد ہے۔ نیز وہ ان کے اس حق کو بھی نہیں مانتا کہ وہ معاملات کے اُن طریقوں کو اسلامی نظامِ حکومت میں جاری رکھیں‘ جو اسلام کے نزدیک اجتماعی فلاح کے لیے مہلک ہیں۔ مثلاً وہ حکومت کا نظام ہاتھ میں لیتے ہی سودی کاروبار کی تمام صورتوں کو مسدود کر دے گا۔۔۔ جوئے کی ہرگز اجازت نہ دے گا۔۔۔ خرید و فروخت اور مالی لین دین کی ان تمام شکلوں کو روک دے گا‘ جو اسلامی قانون میں حرام ہیں۔۔۔ قحبہ خانوں اور فواحش کے اڈوں کو کلیتہً بند کردے گا۔۔۔ غیر مسلم عورتوں کو ستر کے کم سے کم حدود کی پابندی پر مجبور کرے گا اور انھیں تَبَرُّجِ جاہلیہ کے ساتھ پھرنے سے روک دے گا۔۔۔ سینما پر احتساب قائم کرے گا۔ اس قسم کے اور بہت سے امور ہیں‘ جن میںایک اسلامی نظامِ حکومت نہ صرف اجتماعی فلاح و بہبود کی خاطر‘ بلکہ خود اپنے تحفظ (Self-Defence) کی خاطر بھی‘ اُن تمدنی معاملات کی اجازت نہ دے گا‘ جوغیرمسلموں کے مسلک میں چاہے جائز ہوں‘ مگر اسلام کی نگاہ میں موجبِ فساد و ہلاکت ہیں۔
اس باب میں اگر کوئی شخص اسلام پر ناروا داری کا الزام عائد کرے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے کسی انقلابی اور اصلاحی مسلک نے بھی دوسرے مسلک والوں کے ساتھ اتنی رواداری نہیں برتی ہے‘ جتنی اسلام برتتا ہے۔ دوسری جگہ تو آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلک والوں کے لیے زندگی دوبھر کردی جاتی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ وہ وطن چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام غیر مسلک والوں کو پورے امن کے ساتھ ہر قسم کی ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔ اور ان کے ساتھ ایسی فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے‘ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔