جس موضوع پر اس رسالہ میں بحث کی گئی ہے، اس پر اس سے پہلے مَیں اپنے ’’خطبات‘‘ میں روشنی ڈال چکا ہوں، لیکن وہاں میرے مخاطب عوام تھے جو زیادہ گہرے معانی کا ادراک نہیں کرسکتے، اس لیے مجھے بہت سادہ مطالب تک گفتگو محدود رکھنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد میں نے ضرورت محسوس کی کہ تعلیم یافتہ اور صاحب فکر و نظر اصحاب کے لیے اسی موضوع پر ایک مستقل مقالہ لکھوں تاکہ عبادات کی نسبت زیادہ عمیق معانی ان کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اگرچہ ابھی اس میں بہت کچھ اضافہ کی گنجائش ہے اور تمام ان حقیقتوں کا اس میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جو عبادات میں پوشیدہ ہیں لیکن مجھے اُمید ہے کہ جو کچھ اس میں عرض کیا گیا ہے وہ اکثر اہل علم کے عقلی اطمینان کے لیے کافی ہوگا۔
سرِدست صرف نماز روزہ کے متعلق میرے دومقالے شائع کیے جارہے ہیں۔ ابھی زکوٰۃ اور حج پر گفتگو باقی ہے، لیکن اس کے لیے فرصت کا انتظار ہے اور احباب کا تقاضا ہے کہ جو کچھ لکھا جاچکا ہے اسے، جو کچھ لکھا جانا ہے اس کے انتظار میں روک نہ رکھا جائے اس لیے یہ صفحات اس رسالے کے حصہ اول کی حیثیت سے نذر ناظرین ہیں۔