اب سے پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مشہور مصنّف کے قلم سے قرآنِ مجید کی تعلیمات پر ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس میں بہت سی مفید باتوں کے ساتھ کچھ باتیں میرے نزدیک حق کے خلاف بھی تھیں۔ اس پر مَیں نے ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے صفحات میں ایک مفصل تنقید لکھی جو ۱۳۵۳ھ (۱۹۳۴ء) کے ابتدائی پرچوں میں شائع ہوئی۔ پھر وہ تنقید ایک مباحثہ کا موضوع بن گئی اور آگے چل کر ملک کے ایک دوسرے اہلِ قلم بھی مصنّف کے ساتھ اس بحث میں شریک ہوگئے۔ ایک سال تک یہ مباحثہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے صفحات پر جاری رہا جس میں بہت سے مسائل زیربحث آئے۔ من جملہ ان کے ایک یہ مسئلہ بھی تھا کہ زمین کے معاملہ میں اسلامی قانون کا منشا کیا ہے، آیا وہ اسے اجتماعی ملکیت بنا دینا چاہتا ہے یا افراد کی شخصی ملکیت ہی میں رہنے دیتا ہے؟ اور اگر شخصی ملکیت ہی میں رہنے دیتا ہے تو کیا اسے خود کاشتی کی حد تک محدود کردینا چاہتا ہے یا مزارعت کی اجازت بھی دیتا ہے؟
یہ مباحثہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی فائلوں میں دفن ہوکر رہ گیا تھا۔ اب جو مجھے جیل کی مستقل فرصت نے پچھلے ناتمام کاموں کی تکمیل کا موقع دیا تو پرانے اَوراق میں یہ مباحثہ بھی سامنے آیا اور مَیں نے محسوس کیا کہ یہ ایک مفید بحث ہے جس کی ضرورت آج پہلے سے بھی زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوا کہ اب کی ضروریات کے لیے پہلے کی بحث بہت تشنہ ہے۔ اگر صرف اسی کو جوں کا توں شائع کیا جائے تو چنداں فائدہ مند نہ ہوگا۔ اس لیے مَیں نے اس پر نظرثانی کی ، جن جن گوشوں میں خلا محسوس ہوا اُنھیں بھرا اور اس پر بہت سے مزید مباحث کا اضافہ کیا جن کی آج کے لوگوں کو ضرورت ہے۔
اس اِصلاح و اضافہ کے بعد یہ مختصر رسالہ ناظرین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا صرف پہلا باب (ضروری اصلاحات کے ساتھ) اُس مباحثے پر مشتمل ہے جو ترجمان القرآن کے صفحات میں پہلے شائع ہوا تھا۔ باقی ابواب تازہ اضافہ ہیں اور ان کے مخاطب بھی آج ہی کے لوگ ہیں نہ کہ وہ بزرگ جن سے مباحثہ کا آغاز ہوا تھا۔
ابوالاعلیٰ
نیو سنٹرل جیل، ملتان
۹ ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ (۲۹جنوری ۱۹۵۰ء)