قوم، قومیّت اور قوم پرستی کے الفاظ آج کل بکثرت لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، لیکن کم لوگ ہیں جن کے ذہن میں ان کے مفہوم کا کوئی صحیح تصور موجود ہے اور اس سے بھی کم تر لوگ ایسے ہیں جو قوم اور قومیّت اور قوم پرستی کے باب میں اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھتے ہوں۔ اسی ناواقفیت کی وجہ سے نہ صرف الفاظ کے استعمال میں، بلکہ خیالات اور اعمال میں بھی سخت غلطیاں رُونما ہورہی ہیں۔ ایک گروہ مسلمانوں کے لیے’’قوم‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ اس جماعت پر ’’قوم‘‘ یا ’’اُمت‘‘ کے الفاظ کا اطلاق کس معنی میں ہوتا ہے اور اسلام کی ’’قومیّت‘‘ کس نوعیت کی ہے۔ نتیجہ یہ ہےکہ وہ مسلمانوں کو بھی اسی معنی میں ایک ’’قوم‘‘ سمجھنے لگتا ہے جیسے ہندو ایک قوم ہیں یا جرمن ایک قوم ہیں۔ اور یہ غلط فہمی اُس کے اَخلاق اور اجتماعی طرزِعمل اور سیاسی پالیسی کو اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر غلط بلکہ مہلک بنادیتی ہے۔ دوسرا گروہ قومیّت اور قوم پرستی کے بارے میں اسلام کے اصول کو بالکل ہی بھول جاتا ہے ، اور صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کے لیے غیرمسلموں کے ساتھ متّحدہ قومیّت میں شریک ہونے کو جائز سمجھ لیتا ہے، بلکہ اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ قوم پرستی (نیشنلزم) جیسی ایک ملعون چیز کو قبول کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے میں دریغ نہیں کرتا۔
اِن ہی غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے یہ مختصر رسالہ شائع کیا جارہا ہے۔ یہ میرے پانچ مختلف مضامین پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً ترجمان القرآن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ اُمید ہے کہ اس مجموعہ سے مسئلہ کے تمام پہلو ناظرین کے سامنے آجائیں گے۔
ابوالاعلیٰ
۲۰ ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ (۱۹ جنوری ۱۹۴۱ء)