میرے خطباتِ جمعہ کا یہ مجموعہ سب سے پہلے نومبر۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ نومبر ۱۹۵۱ء تک گیارہ سال کی مدت میں اس کے سات اڈیشن تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوئے، اور اس پوری مدت میں کسی کو اس کے اندر کوئی فتنہ نظر نہ آیا، مگر جب علمائے کرام کسی وجہ سے (جس کا علم یا اللہ کو ہے یا خود اُن کو) مجھ سے اور جماعت اسلامی سے ناراض ہو گئے تو میری دوسری کتابوں کی طرح اس کتاب میں سے بھی ان کی نگاہِ فتنہ جُو نے کچھ فتنے ڈھونڈ نکالے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مفتی صاحبان نے خود پوری کتاب پڑھ کر دیکھی تھی، یا کسی کو محض اس خدمت پر مامور فرما دیا تھا کہ اس کو پڑھ کر کچھ ایسے فقرے نکال دے جن پر فتویٰ جڑا جا سکے۔ بہرحال جو صورت بھی ہو، اُن کی نگاہ پوری کتاب میں سے صرف چند فقروں پر جا کر ٹھیری جو انیسویں اور پچیسویں خطبے میں اُن کو ملے۔
انیسویں خطبے کے یہ فقرے اُن کی توجہات کے ہدف بنے ہیں:
۱۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بے کار ہیں، کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص ۱۶۶)
۲۔ ان دو ارکانِ اسلام (یعنی نماز وزکوٰۃ) سے جو لوگ رُوگردانی کریں ان کا دعوائے ایمان ہی جھوٹا ہے۔ (ص۱۷۰)
۳۔ قرآن کی رُو سے کلمۂ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ (ص۱۷۳)
اور پچیسویں خطبے کے یہ فقرے انھوں نے فتویٰ لگانے کے لیے چھانٹے ہیں:
رہے وہ لوگ جن کوعمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک اُن کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انھیں مسلمان سمجھتا ہے۔ (ص۲۳۴)
ان عبارات پر یہ فتویٰ لگایا گیا ہے کہ میں خارجی اور معتزلی ہوں، مسلک اہلِ سنت کے خلاف، اعمال کو جزوِ ایمان قرار دیتا ہوں، اور بے عمل مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہوں۔
حیرت یہ ہے کہ ان فقروں سے متصل ہی دوسرے فقرے موجود تھے جن سے نہ صرف میرے اصل مدّعا کی توضیح ہوتی تھی، بلکہ اس الزام کا جواب بھی ان سے مل سکتا تھا، مگر مفتی صاحبان کی ان باتوں پر یا تو نگاہ نہ پڑی، یا مفیدِ مطلب نہ ہونے کی وجہ سے قصداً انھوں نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ مثلاً پہلے فقرے کو اوپر کے فقرے سے ملا کر پڑھئیے تو پوری عبارت یوں بنے گی:
یہی وجہ ہے کہ سرکارِ رسالت مآب a کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو جناب صدیق اکبر نے ان سے اس طرح جنگ کی جیسے کافروں سے کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور خدا اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت، سب بیکار ہیں۔کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ (ص ۱۶۶)
اسی طرح آخری فقرے سے پہلے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت، نبی a کی دو حدیثیں اور حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی نقل کیا تھا جو میرے بیان کی توثیق کر رہا تھا، مگر نگاہِ انتخاب اس پوری عبارت کو چھوڑ گئی۔ یہ کرتب ہیں اُن بزرگوں کے جو ہمارے ہاں علمِ دین کے معلم اور تزکیۂ نفس کے ماہر بنے ہوئے ہیں۔
پھر اسی کتاب میں میرا ایک پورا خطبہ اس موضوع پر موجود ہے کہ میں اس کتاب میں دراصل کس اسلام وایمان سے بحث کر رہا ہوں (ملاحظہ ہو: خطبہ نمبر ۹ )۔{ FR 1594 } اس میں، میں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ ایک تو ہے وہ قانونی اسلام جس سے فقیہ اور متکلم بحث کرتے ہیں، جس کا حاصل صرف یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اس کی آخری سرحد کو پار نہ کر جائے اس کو خارج از ملت ٹھیرا کر اُن تمدنی ومعاشرتی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جو اسلام نے مسلمانوں کو دیے ہیں۔
دوسرا وہ حقیقی اسلام وایمان ہے جس پر آخرت میں آدمی کے ایمان یا نفاق یا کفر کا فیصلہ ہو گا۔ میں نے ان دونوں کا فرق واضح کرتے ہوئے اس خطبے میں یہ بتایا ہے کہ انبیا ؑ کی دعوت کا اصل مقصود صرف پہلی قسم کے مسلمان بنا بنا کر چھوڑ دینا نہ تھا، بلکہ ان کے اندر وہ حقیقی ایمان پیدا کرنا تھا جس میں اخلاص اور اطاعت اور فدائیت کی روح پائی جاتی ہو۔ اس کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ تم صرف اس اسلام پر قانع نہ ہو جائو جس کی آخری سرحد پار کرنے سے پہلے کوئی مفتی تمھیں کافر نہ کہہ سکے، بلکہ اس اسلام وایمان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر کرو جس سے خدا کے ہاں تم واقعی ایک مخلص اور وفادار مومن قرار پا سکو۔
میری یہ ساری بحث اگر مفتی صاحبان پڑھ لیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب میں نے دراصل کس غرض کے لیے لکھی ہے اور پھر اس کتاب کا ایک ایک لفظ شہادت دیتا ہے کہ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے سارے خطبوں میں یہی غرض میرے پیش نظر رہی ہے، مگر مفتیوں کو اس سے کیا بحث کہ کتاب اور اس کے مصنف کا مدعا کیا ہے۔ ان کو تو تلاش ایسے فقروں کی تھی جنھیں سیاق وسباق سے الگ کرکے ایک فتویٰ لگایا جا سکے۔ ان کے لیے فتویٰ ایک دینی حکم نہیں ہے جسے لگانے کے لیے تحقیق کی ضرورت ہو، بلکہ ایک لٹھ ہے جس کو لوگوں سے ذاتی رنجشوں کا بخار نکالنے کے لیے وہ جب ضرورت محسوس کرتے ہیں استعمال کر لیتے ہیں۔
جس شخص کو علم سے کچھ بھی مَس ہو اُسے کسی کتاب کی کسی عبارت کا مطلب مشخّص کرنے سے پہلے کتاب کے موضوع کو سمجھنا چاہیے۔ یہ کتاب فقہ یا علمِ کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئی ہے۔ اس میں مسئلہ زیر بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مرتد یا خارج از ملت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصود خدا کے بندوں کو فرماں برداری پر اکسانا، نافرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعۃ کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک کتاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب زوائد ہیں۔ تم ان سب کو چھوڑ کر بھی مسلمان رَہ سکتے ہو؟ رہا بجائے خود ایمان اور عمل کے باہمی تعلق اور تکفیرِ مسلمین کا مسئلہ تو اس باب میں اپنا مسلک میں اپنے مضامین میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں جو خاص اسی موضوع پر میں نے لکھے ہیں۔ اس مسلک کو میری کتاب تفہیمات حصہ دوم سے معلوم کرنے کے بجائے خطبات کے ان منتشر فقروں سے مستنبط کرنا آخر کون سی دیانت تھی؟
ابو الاعلیٰ
ذوالحج ۱۳۷۱ھ
مطابق۱۶ ؍اگست ۱۹۵۲ئ