یہ مضمون 1354ھ (1935ء) میں لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کبھی اس پر نظر ثانی کرنے کا موقع نہ ملا۔ اگرچہ بعد میں اس موضوع سے متعلق بہت سی معلومات فراہم کرنے کا اتفاق ہوا مگر اتنی فرصت نہ مل سکی کہ ان کو جمع اور مرتب کرکے اس رسالہ میں اضافہ کر دیا جاتا۔ اسی انتظار میں یہ رسالہ کئی سال تک پڑا رہا۔ آخر کار اب یہ اُسی طرح کتابی شکل میں شائع ہو رہا ہے۔
جس اخلاقی خطرے کو محسوس کرکے اب سے سات آٹھ برس پہلے میں نے یہ مضمون لکھا تھا وہ کم نہیں ہو رہا بلکہ روز بروز بڑھ رہا ہے اور غالباً موجودہ جنگ کے بعد اس میں اور زیادہ اضافہ ہو گا۔ اس لیے مغرب سے آئی ہوئی ہر وَبا کا استقبال کرنے والوں کو سیدھی راہ دکھانے کی ضرورت اب پہلے سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس جنگ میں ایک عظیم الشان قوم (یعنی فرانس) ان غلط اخلاقی وتمدنی نظریات کا نہایت، عبرت ناک انجام دیکھ چکی ہے جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کی احمقانہ حریت فکر کے زیر اثر اختیار کیے گئے تھے۔ جو طاقت مدتہائے دراز تک دنیا کی اول درجہ کی طاقتوں میں شمار ہوتی رہی ہے، اب وہ ایک دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کی طاقت بنتی نظر آتی ہے۔ اس کی وہ سلطنت جو چار براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی ہماری آنکھوں کے سامنے پارہ پارہ ہو رہی ہے۔ اس کے مدبر اعظم مارشل پیتاں (Marshall Petain) نے خود جون 1940ء کی شکست کے بعد علانیہ اس کا اعتراف کیا ہے کہ ہماری یہ ذلت ہماری اپنی نفس پرستیوں کا نتیجہ ہے اور دنیا کے اہل بصیرت نے بالاتفاق اس کی شکست کے اسباب میں سے اہم سبب اس کی شرح پیدائش کے مسلسل انحطاط کو قرار دیا ہے{ FR 7084 }۔اس کے بعد دنیا کی دوسری عظیم تر قوم (یعنی برطانیہ) کو بھی اب یہی خطرہ درپیش ہے۔ چنانچہ حال ہی میں مسٹر چرچل کے صاحبزادے مسٹر رینڈ ولف چرچل نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’میں نہیں سمجھتا کہ ہماری قوم بالعموم اس خطرے سے آگاہ ہو چکی ہے کہ اگر ہماری شرح پیدائش اسی طرح گرتی رہی تو ایک صدی کے اندر جزائر برطانیہ کی آبادی صرف 40 لاکھ رہ جائے گی اور اتنی کم آبادی کے بل بوتے پر برطانیہ دنیا میں ایک بڑی طاقت نہ رہ سکے گا۔‘‘
پھر اس شرح پیدائش کی کمی کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’برطانوی لوگوں میں اپنے معاشرتی مرتبہ کا خیال بہت زیادہ ہے اوروہ نہایت مبالغہ کے ساتھ اپنے اس مرتبہ کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں قصداً افراد خاندان کی تعداد کم تر رکھنے کی سعی کی جاتی ہے کیونکہ بچے ایک دو سے زیادہ ہو جانے کی صورت میں انھیں خوف ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اس شان کے ساتھ مدرسے نہ بھیج سکیں گے جس کے ساتھ ان کے ہمسایوں کے بچے جاتے ہیں اور اس سے معاشرت میں ان کی حیثیت گر جائے گی۔‘‘
یورپ کے جن دوسرے ممالک کو پچھلے دنوں جنگ کے عفریت نے پامال کیا ہے ان میں سے اکثر انھی غلط تمدنی نظریات کی بھینٹ چڑھے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی حماقت سے زندگی کے وہ طریقے اختیار کیے جنھوں نے اُن کی قومی طاقت کو گھن لگا دیا لیکن جن لوگوں کو دنیا میں آنکھیں بند کرکے چلنے کی عادت ہے وہ اِن واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور ظاہر فریب سائنٹفک زبان میں جو نظریات کاغذ پر لکھے گئے ہیں انھی کی پیروی سے چلے جاتے ہیں حالانکہ تجربہ کی کسوٹی، جس نے آج تک کسی مُلّمٰع ساز کے ساتھ رعایت نہیں کی ہے، اس چمکدار کھوٹ کا راز کبھی کا فاش کر چکی ہے۔
میرے اس مختصر رسالہ کا موضوع اگرچہ ضبط ولادت اور اس کی فکری وعملی بنیادوں کا ابطال ہے، لیکن ضمناً اس میں تمدن وفلسفہ کے وسیع تر مسائل پر بھی اشارات آ گئے ہیں جن سے اہل نظرکو مسائل زندگی پر غور کرنے کے لیے مغرب کی پامال راہوں سے الگ ایک دوسری راہ مل سکتی ہے۔ میری کتاب ’’پردہ‘‘ اور ’’حقوق الزوجین‘‘ کے ساتھ مل کر یہ رسالہ اسلام کے نظام معاشرت اور اس کی نظری اساس کو سمجھنے میں غالباً اچھا مددگار ثابت ہو گا۔
ابوالاعلیٰ
دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ، 9 مارچ 1943ء