سوال: یہ جو دُعائوں میں’’بجاہ فلاں ‘‘اور ’’بحرمت فلاں‘‘ کا اضافہ ملتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ سنت رسولؐ کیا بتاتی ہے؟ صحابہؓ کا کیا معمول رہا ہے؟ اور اس طرح (بجاہ… بحرمت) دُعا مانگنے سے کوئی دینی قباحت تو لازم نہیں آتی؟
جواب: دُعا میں اﷲ تعالیٰ کو کسی جاہ وحرمت کا واسطہ دینا وہ طریقہ نہیں ہے جو اﷲ اور اس کے رسول پاکؐ نے ہم کو سکھایا ہے۔ قرآن تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس تخیل سے بالکل خالی ہے۔ حدیث میں بھی اس کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔صحابہ کرامؓ میں سے بھی کسی کے متعلق میںنہیں جانتا کہ انھوں نے دعا میں یہ طریقہ خود اختیار کیا ہو یا دوسروں کو اس کی تعلیم دی ہو۔ معلوم نہیں کہ مسلمانوں میں یہ تخیل کہاں سے آگیا کہ ربّ العالمین کے حضور دُعا مانگتے وقت اسے کسی بندے کی جاہ وحرمت کا حوالہ دیں یا اس سے یہ عرض کریں کہ اپنے فلاں بندے کے طفیل میری حاجت پوری کردے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا ممنوع ہے۔میں صرف دو باتیں کہتا ہوں:
ایک یہ کہ ایسا کرنا اس طریقے کے مطابق نہیں ہے جو ربّ العالمین نے خود ہمیں دعا مانگنے کے لیے سکھایا ہے۔ او ر اس طریق دُعا سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جو نبی aنے اپنے براہِ راست شاگردوں کو بتایا تھا۔ اس لیے اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ کیوں کہ حضور ؐ اور تمام انبیا ؊ آخر یہی بتانے کے لیے تو آئے تھے کہ خدا اور بندوں کے درمیان ربط وتعلق کی صحیح صورت کیا ہے، اور جب انھوں نے اس کی یہ صورت نہ خود اختیار کی، نہ کسی کو سکھائی، تو جو شخص بھی اسے اختیار کرے گا ،وہ معتبر چیز کو چھوڑ کر غیر معتبر چیز کو اختیار کرے گا۔
دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے تو اس طریق دعا میں بڑی کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کے معنیٰ سے صرف نظر کرلے اور اس میں کراہیت کا وہ پہلو محسوس نہ کرے جو مجھے نظر آتا ہے۔میں جب اس طرزِ دُعا کے مضمرات پر غورکرتا ہوں تو میرے سامنے کچھ ایسی تصویر آتی ہے کہ جیسے ایک بہت بڑی سخی داتا ہستی ہے ،جس کے دروازے سے ہر کہ ومہ کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں،جس کا فیض عام ہے،جس کا دربار کھلا ہے،جس سے ہر مانگنے والا مانگ سکتا ہے،اور کسی پر اس کی عطا وبخشش بند نہیں ہے۔ ایسی ہستی کے حضور ایک شخص آتا ہے اور اس سے سیدھی طرح یہ نہیں کہتا کہ اے کریم ورحیم! میری مدد کر، بلکہ یہ کہتا ہے کہ اپنے فلاں دوست کی خاطر میری حاجت پوری کردے۔ مانگنے کے اس اندازمیںیہ بدگمانی پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی صفت رحم وکرم کی وجہ سے کسی کی دست گیری کرنے والا نہیں ہے بلکہ اپنے دوستوں اور چہیتوں اور مقربوںکی خاطر احسان کردیا کرتا ہے۔ان کا واسطہ نہ دیا جائے تو گویا آپ اس کے ہاں سے کچھ پانے کی امید نہیں رکھتے۔ اور بجاہ فلان کہہ کر مانگنے میں تو معاملہ بدگمانی سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔اس کے معنی تو یہ ہیں کہ گویا آپ اس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ میں فلاں بڑے آدمی کا متوسل آیا ہوں، میری درخواست کو کسی بے وسیلہ آدمی کی سی درخواست سمجھ کر نہ ٹال دیجیے گا۔ اگر یہ اس طرز دعا کے مضمرات نہ ہوں تو مجھے سمجھا دیا جائے۔ بڑی خوشی ہوگی کہ میرے دل کی کھٹک اس معاملے میں نکل جائے گی۔ لیکن اگر اس کے واقعی مضمرات یہی ہوں تومیں نہیں سمجھتا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا صحیح تصور رکھتا ہو،وہ ایسا طرز دعا اختیا ر کرنے کا خیال بھی کیسے کرسکتا ہے۔
اسی طرح کے مضمرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہا نے بھی اس طریق دُعا کو مکروہ قرار دیا ہے۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب ہدایہ میں یہ قول موجود ہے:
وَیَکْرَہُ اَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ فِی دُعَائِہِ بِحَقِ فُلَانٍ اَوْبِحَقَ أَنْبِیائِ کَ وَرُسُلِکَ لِاَنَّہُ لَاحَقَّ لِلْمَخْلُوْقِ عَلَی الْخَالِقِ{ لمرغینانی، علی بن ابی بکر،برھان الدین، الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، داراِحیاء التراث العربی، کتاب الکراھیۃ، فصل مسائل متفرقۃ، ج4، ص380 }
( اور یہ مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دُعا میں بحق فلاں یا بحق انبیا و رسل کہے،کیوں کہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں ہے)
(ترجمان القرآن ، اکتوبر،نومبر1957ء)