اس سلسلے میں قبل اس کے کہ ہم اصل فیصلے پر تبصرہ شروع کریں، دو اصولی سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۔ پہلا سوال عدالت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے۔ اِسلامی قانون سے متعلق چودہ صدیوں سے یہ بات تمام دُنیا کے مسلمانوں میں مسلّم چلی آ رہی ہے کہ قرآن کے بعد اس کا دوسرا ماخذ سُنّت رسولﷺ ہے۔ ان طویل صدیوں کے دوران میں اس قانون پر جس قابل ذکر مصنف نے بھی کچھ لکھا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مسلمانوں کے اندر کسی ایسے مذہبِ فکر (school of thought) کسی ایسے فقیہ (jurist) کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا جس کی پیروی مسلمانوں کی کسی قابل لحاظ تعداد نے اختیار کی ہو، اور وہ سُنّت کے مآخذ قانون ہونے کا انکار کرتا ہو۔ متحدہ ہندستان میں جو اینگلو محمڈن لا رائج رہا ہے، اس کے اصولوں میں بھی ہمیشہ یہ چیز مسلّم رہی ہے اور ہمارے علم میں آج تک کسی مجلس قانون ساز کا بھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں آیا ہے جس کی رو سے اِسلامی قانون کے اصولوں میں یہ بنیادی ردوبدل کیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں کوئی منفرد جج، یا کوئی ہائی کورٹ، بلکہ خود سپریم کورٹ بھی قانون میں یہ اصولی تبدیلی کر دینے کا مجاز ہے؟ جہاں تک ہمیں معلوم ہے عدالت کوئی مستقل بالذات قانون ساز ادارہ نہیں ہے۔ جن اصولوں پر ہمارے ملک کا نظام عدل وآئین مبنی ہے۔ اس کی رو سے عدالتیں اس قانون پر کام کرنے کی پابند ہیں جو ان کو قانون ساز ادارے کی طرف سے دیا جائے۔ وہ قانون کی تعبیر ضرور کر سکتی ہیں اور اس نظام میں ان کی تعبیر کو بلاشبہ قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن ہمارے علم میں آج تک یہ بات نہیں آئی ہے کہ انھیں بجائے خود قانون یا اس کے مُسلَّمہ اصولوں میں ردوبدل کر دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اختیار عدالتوں کو کب اور کہاں سے حاصل ہوا ہے؟
۲۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قانون میں اس طرح کی اصولی تبدیلی کا مجاز آخر ہے کون؟ اس وقت تک مملکتِ پاکستان کے متعلق دعوٰی یہی ہے کہ یہ مملکت جمہوریت کے اصول پر قائم ہوئی ہے اور جمہوریت کے کوئی معنی نہیں ہیں اگر اس میں باشندوں کی اکثریت کا منشا حکم ران نہ ہو۔ اب اگر پاکستان کے مسلمان باشندوں سے کوئی استصواب عام کرایا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ۹ ہزار ۹سو۹۹فی دس ہزار سے بھی زیادہ اکثریت اس عقیدے کا اظہار کرے گی کہ قرآن کے بعد سُنّتِ رسولﷺ اِسلامی قانون کی لازمی بنیاد ہے، اور وہ لوگ شاید پوری طرح دس ہزار میں ایک بھی نہ ہوں گے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال جب تک موجود ہے، کیا اِسلامی قانون کے مآخذ میں سے سُنّت کا اسقاط کر دینا کسی حاکم عدالت کے اختیار میں ہے؟ یا کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے؟ یا کوئی قانون ساز ادارہ اس کا مجاز ہے؟ ان سوالات کا جواب اثبات میں دیا جا سکتا تھا اگر یہاں کسی خاص طبقے کی آمریت قائم ہوتی۔ لیکن جمہوری اصول پر ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی شخص ان کا جواب اثبات میں کیسے دے سکتا ہے۔ جس وقت تک یہاں جمہوریت کی قطعی نفی نہیں ہو جاتی، کسی ذی اختیار شخص کو اپنے اختیارات اپنی ذاتی آرا کے مطابق استعمال کرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ وہ انھیں اس قانون ہی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے جو یہاں اکثریت کی مرضی سے نافذ ہے۔ حکام میں سے جو اصحاب اپنے کچھ زیادہ پُرزور خیالات رکھتے ہوں، ان کے لیے سیدھا راستہ یہ کھلا ہوا ہے کہ مستعفی ہو کر اپنی پوری علمی قابلیت عامہ مسلمین کا عقیدہ تبدیل کرنے میں صرف کریں لیکن جب تک وہ کسی بااختیار منصب پر فائز ہیں، وہ اس تبدیلی کے لیے اپنے اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ جمہوریت کا کھلا ہوا منطقی تقاضا ہے۔ اس سے انکار کے لیے کسی کے پاس اگر کچھ دلائل ہوں تو ہم انھیں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورۂ بالا دونوں اصولی مسائل کے متعلق جو نقطہ نظر ہم نے اوپر پیش کیا ہے، اس کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو عدالت کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ہم یہ گزارش کریں گے کہ فاضل جج کے لیے اپنے ان مخصوص خیالات کو اپنے ایک عدالتی فیصلے میں بیان کرنا مناسب نہ تھا۔ وہ ان کو اپنی شخصی حیثیت میں ایک مضمون کے طور پر تحریر فرماتے اور کسی رسالے میں شائع کرا دیتے تو چنداں قابل اعتراض نہ ہوتا۔ اس صورت میں زیادہ آزادی کے ساتھ ان پر بحث ہو سکتی تھی بغیر اس کے کہ احترامِ عدالت کسی کے لیے آزادیِ ٔتنقید میں مانع ہو۔