دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ’’از راہ قیاس ایسی شادی کو (یعنی ایک سے زائد بیویوں کے ساتھ شادی کو )یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘ وہی عام غلطی ہے جو اس آیت کا مطلب لینے میں جدید زمانے کے بعض لوگ کر رہے ہیں۔ ان کاخیال یہ ہے کہ آیت میں چوں کہ یتامیٰ کے ساتھ انصاف کا ذکر آ گیا ہے، اس لیے لامحالہ ایک سے زائد بیویاں کرنے کے معاملے میں کسی نہ کسی طرح یتامیٰ کا معاملہ بطور ایک لازمی شرط کے شامل ہونا چاہیے۔ حالانکہ اگر اس بات کو ایک قاعدہ کلیہ بنا لیا جائے کہ قرآن میں کسی خاص موقع پر جو حکم دیا گیا ہو، اور اس موقع کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کر دیا گیا ہو، وہ حکم صرف اسی موقع کے لیے خاص ہو گا، تو اس سے بڑی قباحتیں لازم آئیں گی، مثلاً عرب کے لوگ اپنی لونڈیوں کو پیشہ کمانے پر زبردستی مجبور کرتے تھے۔ قرآن نے اس کی ممانعت ان الفاظ میں فرمائی کہ
وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا النور 33:24
اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ بچی رہنا چاہتی ہوں۔
کیا یہاں از راہِ قیاس یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ حکم صرف لونڈیوں سے متعلق ہے، اور یہ کہ لونڈی اگر خود بدکار رہنا چاہتی ہو تو اس سے پیشہ کرایا جا سکتا ہے؟
دراصل اس طرح کی قیود کا واقعاتی پس منظر جب تک نگاہ میں نہ ہو، آدمی قرآن مجید کی ایسی آیات کو، جن میں کوئی حکم بیان کرتے ہوئے کسی خاص حالت کا ذکر کیا گیا ہے، ٹھیک نہیں سمجھ سکتا۔ آیت وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ عرب میں اور قدیم زمانے کی پوری سوسائٹی میں، صدہا برس سے تعدد ازواج مطلقًا مباح تھا۔ اس کے لیے کوئی نئی اجازت دینے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی، کیوں کہ قرآن کا کسی رواج عام سے منع نہ کرنا خود ہی اس رواج کی اجازت کا ہم معنی تھا۔ اس لیے فی الحقیقت یہ آیت تعدّد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، بلکہ جنگ احد کے بعد جو بہت سی عورتیں کئی کئی بچوں کے ساتھ بیوہ رہ گئی تھیں، ان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اس میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ اگر شہدائے احد کے یتیم بچوں کے ساتھ تم یوں انصاف نہیں کر سکتے تو تمھارے لیے ایک سے زائد بیویاں کرنے کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا ہے، ان کی بیوہ عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان کے ساتھ نکاح کر لو، تاکہ ان کے بچے تمھارے اپنے بچے بن جائیں اور تمھیں ان کے مفاد سے ذاتی دل چسپی پیدا ہو جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی منطق کی رو سے بھی نہیں نکالا جا سکتا کہ تعدّد ازواج صرف اسی حالت میں جائز ہے جب کہ یتیم بچوں کی پرورش کا مسئلہ درپیش ہو۔ اس آیت نے اگر کوئی نیا قانون بنایا ہے تو وہ تعدد ازواج کی اجازت دینا نہیں ہے، کیوں کہ اس کی اجازت تو پہلے ہی تھی اور معاشرے میں ہزاروں برس سے اس کا رواج موجود تھا، بلکہ دراصل اس میں جو نیا قانون دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد پر چار کی قید لگا دی گئی ہے جو پہلے نہ تھی۔