یہی دَور تھا جس میں حدیث کے مجموعے لکھنے اور مرتب کرنے کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے احادیث کے مجموعے مرتب کیے وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ ربیع بن صبیح ؒ وفات ۱۶۰ھ
انھوں نے ایک ایک فقہی عنوان پر الگ الگ رسائل مرتب کیے۔
۲۔ سعید بن عروبہؒ (وفات ۱۵۶ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۳۔ موسیٰ بن عقبہؒ (وفات ۱۴۱ھ)
انھوں نے نبی ﷺ کے غزوات کی تاریخ مرتب کی۔
۴۔ امام مالکؒ ( ۹۳ھ۔ ۷۹اھ)
انھوں نے احکام شرعی کے متعلق احادیث وآثار کو جمع کیا۔
۵۔ ابن جریج ؒ ( ۸۰ھ ۱۵۰ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۶۔ امام اوزاعیؒ ( ۸۸ھ ۱۵۷ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۷۔ سفیان ثوریؒ ( ۹۷ھ ۱۶۱ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۸۔ حماد بن سلمہ بن دینارؒ (وفات ۱۷۶ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۹۔ امام ابویوسف ؒ ( ۱۱۳ھ۔ ۱۸۲ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۰۔ امام محمدؒ (۱۳۱ھ ۔۱۸۹ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۱۔ محمد بن اسحاقؒ (وفات ۱۵۱ھ)
انھوں نے نبیﷺکی سیرت پاک مرتب کی۔
۱۲۔ ابن سعدؒ (۱۶۸ھ ۔۲۳۰ھ)
انھوں نے نبیﷺ اور صحابہ وتابعین کے حالات جمع کیے۔
۱۳۔ عبیداللّٰہ بن موسیٰ العبسیؒ(وفات ۲۱۳ھ)
انھوں نے ایک ایک صحابی کی روایات الگ الگ جمع کیں۔
۱۴۔ مسدّد بن مسرھَد البصریؒ (وفات ۲۱۸ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۵۔ اسد بن موسیٰ ؒ(وفات۲۱۲ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۶۔ نعیم بن حماد الخزاعیؒ (وفات ۲۲۸ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۷۔ امام احمد بن حنبلؒ ( ۱۶۴ھ۔ ۲۴۱ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۸۔ اسحاق بن راہویہؒ (۱۶۱ھ ۲۳۸ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۱۹۔ عثمان بن ابی شیبہؒ (۱۵۶ھ ۲۳۹ھ)
۔۔ایضاً۔۔
۲۰۔ ابوبکر بن ابی شیبہؒ ( ۱۵۹ھ ۲۳۵ھ)
انھوں نے فقہی ابواب اور صحابہؓ کی جداگانہ مرویات دونوں کے لحاظ سے احادیث جمع کیں۔
ان میں سے امام مالکؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمد ؒ،محمد بن اسحاقؒ، ابن سعدؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور ابوبکر ابن ابی شیبہؒ کی کتابیں آج تک موجود ہیں او ر شائع ہو چکی ہیں۔ نیز موسیٰ بن عقبہ کی کتاب المغازی کا ایک حصہ بھی شائع ہو چکا ہے اور جن حضرات کی کتابیں آج نہیں ملتیں وہ بھی درحقیقت ضائع نہیں ہوئی ہیں، بلکہ ان کا پورا مواد بخاری ومسلم اور ان کے ہم عصروں نے اور ان کے بعد آنے والوں نے اپنی کتابوں میں شامل کر لیا۔ اس لیے لوگ ان سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔
امام بخاریؒ کے دور تک علمِ حدیث کی اس مسلسل تاریخ کو دیکھنے کے بعد کوئی شخص فاضل جج کے ان ارشادات کو آخر کیا وزن دے سکتا ہے، کہ ’’احادیث نہ یاد کی گئیں نہ محفوظ کی گئیں، بلکہ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرکے مر گئے یہاں تک کہ ان کی وفات کے چند سو برس بعد ان کو جمع اور مرتب کیا گیا‘‘ اور یہ کہ ’’بعد میں پہلی مرتبہ رسول اللّٰہﷺ کے تقریباً ایک سو برس بعد احادیث کو جمع کیا گیا مگر ان کا ریکارڈ اب محفوظ نہیں ہے۔‘‘ اس موقع پر ہم یہ عرض کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ ہائی کورٹ جیسی بلند پایہ عدالت کے ججوں کوعلمی مسائل پر اظہار خیال کرنے میں اس سے زیادہ محتاط اور باخبر ہونا چاہیے۔