Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
پہلا خط
میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام
قائم مقامی کے اصول کی غلطی
ایک اور غلط تجویز
دوسرا خط
مصنف کا جواب

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

دوسرا خط

’’نوائے وقت‘‘ میں یتیم پوتے کی وراثت کے متعلق میرے سابق مضمون کی اشاعت کے بعد تونسہ شریف سے ایک صاحب نے مجھے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے ایک خط کا تراشا بھیجا ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اس پر اظہار رائے کروں۔نیز اس سلسلے میں کچھ سوالات بھی کیے ہیں۔ میں ان کا خط اور اس کے جواب میں ان کو جو کچھ میں نے لکھا ہے، وہ آپ کے پاس بغرض اشاعت بھیج رہا ہوں۔ کیونکہ اس میں ان بیشتر قابلِ لحاظ اعتراضات کا جواب آگیا ہے جو میرے مضمون کی اشاعت کے بعد نوائے وقت میں بعض اصحاب نے اٹھائے ہیں۔
صرف ایک دو باتیں وضاحت طلب باقی رہ جاتی ہیں جو آپ کے ہاں شائع شدہ مراسلات میں کہی گئی ہیں۔ ایک صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے پہلے تو کبھی یہ لکھا تھا کہ قرآن و حدیث میں یتیم پوتے کی محرومی کے متعلق کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے اور اب اسے قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن میں گزارش کروں گا کہ انھوں نے میرا مدعا سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ قرآن و حدیث میں صراحتاً تو کہیں یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو وراثت نہ دی جائے (اور اسی طرح قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم یہ بھی نہیں ہے کہ پوتوں کو وراثت ضرور دی جائے) لیکن تقسیم میراث کی اس اسکیم پر اگر غور کیا جائے جو کتاب و سنّت میں بیان ہوئی ہے تو نتیجہ یہی مستنبط ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں پوتوں کو وراثت نہ دی جائے اور یہ استنباط تمام علماے امت کا متفق علیہ ہے۔
ایک تازہ خط میں خلافت کے قریش تک محدود ہونے پر فقہائے سلف کے اجماع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس اجماع سے بعد کے علما نے اختلاف کیا ہے۔ اس لیے پوتے کی وراثت کے معاملے میں بھی اجماع کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہے۔ مگر اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اجماع جن ارشاداتِ نبویؐ پر مبنی تھا، انھی ارشادات میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ قریش میں خلافت اس وقت تک رہے گی جب تک کہ وہ ’’دین کو قائم کرتے رہیں۔‘‘ اسی بات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سقیفہ بنی ساعدہ میں واضح کر دیا تھا کہ ’’یہ حکومت قریش میں رہے گی جب تک وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے حکم پر ٹھیک ٹھیک چلتے رہیں۔‘‘ پس بعد کے ادوار میں غیر قریش کی خلافت کے جواز کا فتویٰ اجماعِ سلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں دیا گیا بلکہ ان اوصاف کے فقدان کی وجہ سے دیا گیا ہے جو قریش میں خلافت کے رہنے کے لیے شرط کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے اس معاملے میں یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ بعد کے علما نے سابق اجماع کو توڑ دیا۔ اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کسی اجماع کا ماخذ اگر قرآن و سنّت میں سرے سے موجود ہی نہ ہو تب تو اس پر نظرثانی ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کا ماخذ قرآن و سنّت میں ہو تو پھر اس پر نظرثانی خود قرآن و سنّت کے دلائل کی بنیاد پر ہی ممکن ہے جیسا کہ اوپر میں نے قریش کے استحقاقِ خلافت کے معاملے میں واضح کیا ہے۔
اب میں تونسہ شریف سے آمدہ خط کا ضروری حصّہ اور اس کا جواب ذیل میں نقل کرتا ہوں۔
(۱) وراثت کے متعلق مولانا آزاد مرحوم کے خط سے جس نئے نظریۂ فکر کی نشان دہی ہوتی ہے کیا آپ اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں گے؟
(۲) اس عبارت سے تو یہ مطلب پایا جاتا ہے کہ لڑکا باپ کے گھر پیدا ہونے سے مالکِ ورثہ قرار پایا البتہ قابض ترکہ باپ کے مرنے کے بعد ہو گا (اس لیے لڑکے کے مرنے سے پوتا دادا کی جائداد سے محجوب الارث نہیں)
(۳) اگر یہ نظریہ غلط ہے تو باپ کے خبطی یا اوباش ہو جانے کی صورت میں لڑکا اپنی جدّی جائداد کا تحفظ یا (کورٹ آف وارڈ) کرانے کا حق کس طرح رکھتا ہے؟‘‘

شیئر کریں