مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کی ارتقائی تاریخ پر اجمالی نظر ڈال لی جائے۔
(۱) انگلستان میں کنگ جان نے ۱۲۱۵ء میں جو میگنا کارٹا جاری کیا تھا، وہ دراصل اس کے اُمرا (Baron) کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ اس کی حیثیت بادشاہ اور امرا کے درمیان ایک قرارداد کی سی تھی اور زیادہ تر امرا ہی کے مفاد میں وہ مرتب کیا گیا تھا۔ عوام الناس کے حقوق کا اس میں کوئی سوال نہ تھا۔ بعد کے لوگوں نے اس کے اندر وہ معنی پڑھے جو اس کے اصل لکھنے والوں کے سامنے بیان ہوتے تو وہ حیران رہ جاتے۔ سترھویں صدی کے قانون پیشہ لوگوں نے اس میں یہ پڑھا کہ تحقیقِ جرم رو بروئے مجلس قضا (Trial By Jury) حبس بے جا کے خلاف داد رسی (Right of Habeas Corpus) اور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر کنٹرول کے حقوق انگلینڈ کے باشندوں کو اس میں دئیے گئے ہیں۔
(۲) ٹام پین (Tom Paine) ۱۷۳۷ئ تا ۱۸۰۹ء کے پمفلٹ ’’حقوق انسانی‘‘ (Rights of Man) نے اہلِ مغرب کے خیالات پر بہت بڑا انقلابی اثر ڈالا۔ اور اسی کے پمفلٹ (۱۷۹۱ء) نے مغربی ممالک میں حقوق انسانی کے تصوّر کی عام اشاعت کی۔ یہ شخص الہامی مذہب کا قائل نہ تھا اور ویسے بھی وہ دور الہامی مذہب سے بغاوت کا دور تھا۔ اس لیے مغربی عوام نے یہ سمجھا کہ الہامی مذہب حقوقِ انسانی کے تصوّر سے خالی ہے۔
(۳) انقلاب فرانس کی داستان کا اہم ترین ورق ’’منشور حقوقِ انسانی‘‘ (Declaration of the Rights of Man) ہے جو ۱۷۸۹ء میں نمودار ہوا۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اجتماعی فلسفے اور خصوصاً رُو سو کے نظریۂ معاہدۂ عمرانی (Social Contract Theory) کا ثمرہ تھا۔ اس میں قوم کی حاکمیّت، آزادی، مساوات اور ملکیّت کے فطری حقوق کا اثبات کیا گیا تھا۔ اس میں ووٹ کے حق، قانون سازی اور ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات پر رائے عامّہ کے کنٹرول، تحقیقِ جرم رو بروئے مجلس قضا (Trial By Jury) وغیرہ کا اثبات کیا گیا۔
اس منشورِ حقوقِ انسانی کو فرانس کی دستور ساز اسمبلی نے انقلاب فرانس کے عہد میں اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ جب دستور بنایا جائے تو اس وقت اسے اس کے آغاز میں درج کیا جائے اوردستور میں اس کی سپرٹ کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۴) امریکا (U.S.A) کی دس ترامیم میں بڑی حد تک وہ تمام حقوق گنوائے گئے ہیں جو برطانوی فلسفۂِ جمہوریت پر مبنی ہو سکتے تھے۔
(۵) انسانی حقوق وفرائض کا و ہ منشور بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے بگوٹا کانفرنس میں امریکی ریاستوں نے ۱۹۴۸ء میں منظور کیا۔
(۶) پھر جمہوری فلسفہ کے تحت یو، این، او نے تدریجاً بہت سے مثبت اور بہت سے تحفظاتی حقوق کے متعلق قرار دادیں پاس کیں اور بالآخر ’’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘‘ منظر عام پر آیا۔
دسمبر ۱۹۴۶ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزولیشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کُشی (Genocide) کو بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک جرم قرار دیا گیا۔
پھر دسمبر ۱۹۴۸ء میں نسل کُشی کے انسداد اور سزا دہی کے لیے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲۔ جنوری ۱۹۵۱ء کو اس کا نفاذ ہوا۔ اس میں نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ حسبِ ذیل افعال میں سے کوئی فعل اس غرض سے کرنا کہ کسی قومی، نسلی یا اخلاقی (Ethtcal) گروہ (Group) یا اس کے ایک حصے کو فنا کرایا جائے۔
(۱) ایسے کسی گروہ کے افراد کو قتل کرنا۔
(۲) انھیں شدید نوعیّت کا جسمانی یا ذہنی ضرر پہنچانا۔
(۳) اس گروہ پر بالارادہ زندگی کے ایسے احوال کو مسلّط کرنا جو اس کی جسمانی بقا کے لیے کلاًیا جزاً تباہ کن ہوں۔
(۴) اس گروہ میں سلسلۂ تولید کو روکنے کے لیے جبری اقدامات کرنا۔
(۵) جبری طور پر اس گروہ کی اولادوں کو کسی دوسرے گروہ کی طرف منتقل کرنا۔
۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جو ’’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘‘ پاس کیا گیا تھا، اس کے دیباچے میں من جملہ دوسرے عزائم کے ایک یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ:
’’بنیادی انسانی حقوق میں، فرد انسانی کی عزت واہمیت میں مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق میں اعتقاد کو موثق بنانے کے لیے۔‘‘
نیز اس میں اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ :
’’انسانی حقوق کا احترام قائم کرنے، اور نسل وصنف یا زبان ومذہب کا امتیاز کیے بغیر تمام انسانوں کو بنیادی آزادیاں دلوانے کے کام میں بین الاقوامی تعاون کا حصول۔‘‘