اس کے بعد ان تابعین کو دیکھیے جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے سیرت پاکؐ کا علم حاصل کیا اور بعد کی نسلوں تک اس کو منتقل کیا۔ ان کی تعداد کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ صرف طبقات ابن سعد میں چند مرکزی شہروں کے جن تابعین کے حالات ملتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
مدینہ ۴۸۴،مکہ۱۳۱ ، کوفہ۴۱۳، بصرہ۱۶۴
ان میں سے جن اکابر تابعین نے حدیث کے علم کو حاصل کرنے، محفوظ کرنے اور آگے پہنچانے کا سب سے بڑھ کر کام کیا ہے، وہ یہ ہیں:
اسمِ گرامی
پیدائش
وفات
۱۔سعید بن المسیّبؒ
۱۴ھ
۹۳ھ
۲۔حسن بصریؒ
۲۱ھ
۱۱۰ھ
۳۔ابن سیرینؒ
۳۳ھ
۱۱۰ھ
۴۔عروہ بن زبیرؒ (انھوں نے سیرت رسولﷺ پر پہلی کتاب لکھی)
۲۲ھ
۹۴ھ
۵۔علی بن حسینؒ (زین العابدین)
۳۸ھ
۹۴ھ
۶۔مجاہدؒ
۲۱ھ
۱۰۴ھ
۷۔ قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ
۳۷ھ
۱۰۶ھ
۸۔ شریح ؒ (حضرت عمرؓ کے زمانے میں قاضی مقرر ہوئے)
۔
۷۸ھ
۹۔ مسروق ؒ (حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے)
۔
۶۳ھ
۱۰۔ اسود بن یزیدؒ
۔
۷۵ھ
۱۱۔ مکحولؒ
۔
۱۱۲ھ
۱۲۔ رجا بن حَیْوہَ
۔
۱۱۳ھ
۱۳۔ ہمام بن منبہؒ (انھوں نے احادیث کا ایک مجموعہ مرتب کیا جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے آج بھی موجود ہے اور شائع ہو چکا ہے۔)
۴۰ھ
۱۳۱ھ
۱۴۔سالم بن عبداللّٰہ بن عمرؒ
۔
۱۰۶ھ
۱۵۔ نافع مولیٰ عبداللّٰہ بن عمرؒ
۔
۱۱۷ھ
۱۶۔ سعید بن جبیرؒ
۴۵ھ
۹۵ھ
۱۷۔ سلیمان الاعمشؒ
۶۱ھ
۱۴۸ھ
۱۸۔ ایوب السختیانی
۶۶ھ
۱۳۱ھ
۱۹۔ محمد بن المنکدرؒ
۵۴ھ
۱۳۰ھ
۲۰۔ ابن شہاب زُہری (انھوں نے حدیث کا بہت بڑا تحریری ذخیرہ چھوڑا)
۵۸ھ
۱۲۴ھ
۲۱۔ سلیمان بن یسارؒ
۳۴ھ
۱۰۷ھ
۲۲۔ عکرمہ مولیٰ ابن عباسؒ
۲۲ھ
۱۰۵ھ
۲۳۔ عطاء بن ابی رباحؒ
۲۷ھ
۱۱۵ھ
۲۴۔ قتادہ بن دعامہؒ
۶۱ھ
۱۱۷ھ
۲۵۔ عامر الشعبیؒ
۱۷ھ
۱۰۴ھ
۲۶۔ علقمہؒ (یہ رسول اللّٰہؐ کے زمانے میں جوان تھے مگر حضورؐ سے ملے نہیں )
۔
۶۲ھ
۲۷۔ ابراہیم النخعیؒ
۴۶ھ
۹۶ھ
۲۸۔ یزید بن ابی حبیبؒ
۵۳ھ
۱۲۸ھ
ان حضرات کی تواریخ پیدائش ووفات پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں نے صحابہؓ کے عہد کا بہت بڑاحصہ دیکھا ہے۔ ان میں سے بیش تر وہ تھے جنھوں نے صحابہؓ کے گھروں میں اور صحابیاتؓ کی گودوں میں پرورش پائی ہے، اور بعض وہ تھے جن کی عمر کسی نہ کسی صحابیؓ کی خدمت میں بسر ہوئی۔ ان کے حالات پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص نے بکثرت صحابہؓ سے مل کرنبی ﷺ کے حالات معلوم کیے ہیں اور آپﷺ کے ارشادات اور فیصلوں کے متعلق وسیع واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ اسی وجہ سے روایت حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ انھی لوگوں سے بعد کی نسلوں کو پہنچا ہے، تاوقتیکہ کوئی شخص یہ فرض نہ کر لے کہ پہلی صدی ہجری کے تمام مسلمان منافق تھے۔ اس بات کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ ان لوگوں نے گھر بیٹھے حدیثیں گھڑی ہوں گی اور پھر بھی پوری امت نے انھیں سرآنکھوں پر بٹھایا ہو گا اور ان کو اپنے اکابر علما میں شمار کیا ہو گا۔
اس کے بعد اصاغر تابعین اور تبع تابعین کا وہ گروہ ہمارے سامنے آتا ہے جو ہزارہا کی تعدادمیں تمام دُنیائے اِسلام میں پھیلا ہوا تھا۔ ان لوگوں نے بہت بڑے پیمانے پر تابعین سے احادیث لیں اور دور دور کے سفر کرکے، ایک ایک علاقے کے صحابہؓ اوران کے شاگردوں کا علم جمع کیا، ان کی چند نمایاں شخصیتیں یہ ہیں:
نام
پیدائش
وفات
۱۔ جعفر بن محمد بن علی (جعفر الصادقؒ)
۸۰ھ
۱۴۸ھ
۲۔ ابوحنیفہ النعمانؒ (امام اعظم)
۸۰ھ
۱۵۰ھ
۳۔ شعبہ بن الحجاجؒ
۸۳ھ
۱۶۰ھ
۴۔ لیث بن سعدؒ
۹۳ھ
۱۶۵ھ
۵۔ ربیعۃ الرائے (استاذ امام مالکؒ)
۔
۱۳۶ھ
۶۔ سعید بن عروبہؒ
۔
۱۵۶ھ
۷۔ مسعر بن کدامؒ
۔
۱۵۲ھ
۸۔ عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ
۔
۱۲۶ھ
۹۔ سفیان الثوریؒ
۹۷ھ
۱۶۱ھ
۱۰۔ حماد بن زیدؒ
۹۸ھ
۱۷۹ھ