سوال
درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کردیاجائے؟نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟
جواب
درایت سے مراد وہ فہمِ دین ہے جس کو قرآن مجید میں ’’حکمت‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ حکمت شریعت کی صحیح پیروی کے لیے وہی درجہ رکھتی ہے جو درجہ’’ حذاقت‘‘ کا فن طب میں ہے۔ جن لوگوں نے اس میں سے کم حصہ پایاہو یا جنھیں اس کی قدر وقیمت کا احساس نہ ہو،ان کے لیے تو یہی مناسب ہے کہ جیسا لکھا پائیں ، ویسا ہی عمل کریں ۔ لیکن جنھیں اس میں سے کچھ حصہ ملا ہو،وہ اگر اس بصیرت سے جو انھیں اﷲ کے فضل سے کتاب وسنت میں حاصل ہوئی ہو،کام نہ لیں تو میرے نزدیک گناہ گار ہوں گے۔
میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے میں آپ کو حکمت اور فقہ اور فہم دین کا کوئی ایسا معیار بتا سکوں جس پر آپ ناپ تول کر دیکھ لیں کہ کسی نے ان میں سے حصہ پایا ہے یا نہیں ، اور پایا ہے تو کتنا پایا ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے طبیب کی حذاقت کا،جوہری کی جوہر شناسی کا اور کسی صاحبِ فن کی فنی مہارت کا کوئی نپا تلا معیار مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس چیز کے حدود معین نہ کیے جاسکنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ چیز سرے سے لاشے ہے یا شریعت میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن ، جولائی،اکتوبر ۱۹۴۴ء)