سوال
براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریرفرما کر تشفی فرمائیں ۔ حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔کیوں کہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا،او کما قال۔ اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟کیانبیﷺ کو جس شکل وشباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورؐ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپؐ کو ہی دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں ؟
جواب
اس حدیث کی صحیح تشریح یہ ہے کہ جس نے نبیﷺ کو حضور کی اصلی شکل وصورت میں دیکھا،اس نے درحقیقت آپ ؐ ہی کو دیکھا۔ کیوں کہ شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی ہے کہ وہ آپؐ کی صورت میں آکر کسی کو بہکا سکے۔ اس کی یہی تشریح محمد بن سیرینؒ نے کی ہے۔ امام بخاریؒ کتاب التعبیرمیں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہإذَا رَاٰہُ فیِ صُورتِہٖ({ FR 2026 }) (جب کہ دیکھنے والے نے آپﷺ کو آپؐ ہی کی صورت میں دیکھا ہو) حافظ ابن حجرؒ صحیح سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص ابن سیرینؒ سے کہتا کہ میں نے خواب میں نبیؐ کو دیکھا ہے تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ تو نے کس شکل میں دیکھا۔ اگر وہ آپ کی کوئی ایسی شکل بیان کرتا جو آپ کے حلیے سے نہ ملتی تھی تو ابن سیرینؒ کہہ دیتے تھے کہ تو نے حضو رﷺ کو نہیں دیکھا ہے۔ یہی طرزِ عمل حضرت ابن عباسؓ کا بھی تھا، جیسا کہ حاکم نے بسند نقل کیا ہے۔({ FR 2027 }) بلکہ سچ یہ ہے کہ خود حدیث کے الفاظ بھی اسی معنی کی توثیق کرتے ہیں ۔ جن مختلف الفاظ میں یہ حدیث صحیح سندوں سے منقول ہوئی ہے ان سب کا مفہوم یہی ہے کہ ’’شیطان نبیؐ کی شکل میں نہیں آسکتا۔‘‘ نہ یہ کہ شیطان کسی شکل میں آکر آدمی کو یہ دھوکا نہیں دے سکتا کہ وہ آں حضور ﷺ کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبیﷺ کو دیکھے اور آپ سے کوئی امر یا کوئی نہی کا حکم سنے، یا دین کے معاملے میں کسی قسم کا ایما آپ سے پائے، تو اس کے لیے اس خواب کی پیروی اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس تعلیم یا ایما کے مطابق کتاب وسنت ہونے کا اطمینان نہ کر لے۔اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہمارے لیے دین کا معاملہ خوابوں اور کشفوں اور الہاموں پر نہیں چھوڑا ہے ۔حق اور باطل اور صحیح اور غلط کو ایک روشن کتاب اور ایک مستند سنت میں پیش کردیا گیا ہے جسے بے داری میں اور پورے شعور کی حالت میں دیکھ کر راہ راست معلوم کی جاسکتی ہے۔اگر کوئی خواب یا کشف یا الہام اس کتاب اور اس سنت کے مطابق ہے تو خدا کا شکر ادا کیجیے کہ اﷲ نے حضورؐ کی زیارت نصیب کی،یا کشف والہام کی نعمت سے نوازا۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف ہے تو اسے ردکر کیجیے اور اﷲ سے دُعا مانگیے کہ وہ ایسی آزمائشوں سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے۔
ان دو باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بکثرت لوگ گمراہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں ۔ متعدد آدمی میرے علم میں ایسے ہیں جو صرف اس بِنا پر ایک گمراہ مذہب کے پیرو ہوگئے کہ انھوں نے خواب میں نبیﷺ کو اس مذہب کے بانی کی توثیق کرتے یا اس کی طرف التفات فرماتے دیکھا تھا۔ وہ اس گمراہی میں نہ پڑتے اگر اس حقیقت سے واقف ہوتے کہ خواب میں کسی شکل کے انسان کو نبیؐ کے نام سے دیکھ لینا درحقیقت حضورﷺ کو دیکھنا نہیں ہے۔ اور یہ کہ خواب میں واقعی حضورؐ ہی کی زیارت نصیب ہو، تب بھی کوئی حکم شرعی اور امر دینی ایسے خواب سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر شیطان کے فریب سے تحفظ صرف اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آدمی حضور ﷺ کو آپ کی اصلی شکل میں دیکھے تو اس کا فائدہ صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوسکتا تھا جنھوں نے آپ کو بے داری میں دیکھا تھا۔ بعد کے لوگ آخر کیسے جان سکتے ہیں کہ جو شکل وہ خواب میں دیکھ رہے ہیں ، وہ حضور ﷺ ہی کی ہے یا کسی اور کی؟ ان کو اس حدیث سے کیا تسلی ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعد کے لوگ اس بات کا اطمینان تو نہیں کرسکتے کہ انھوں نے جو شکل خواب میں دیکھی وہ حضور ﷺ ہی کی شکل تھی،مگر یہ تو معلوم کرسکتے ہیں کہ خواب کے معنی اور مضمون کی مطابقت قرآن و سنت کی تعلیم سے ہے یا نہیں ۔ مطابقت پائی جاتی ہوتو پھر زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ انھوں نے خواب میں حضورﷺ ہی کی زیارت کی ہے،کیوں کہ شیطان کسی کو راہِ راست دکھانے کے لیے تو بہروپ نہیں بھرا کرتا۔({ FR 1865 }) (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۶ء)