اس اصولی بحث کے بعد پیراگراف ۲۴ میں فاضل جج یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ خلفائے راشدین نے اگر اپنے دور حکومت میں سُنّت کا اتباع کیا بھی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کے متعلق وہ فرماتے ہیں:
کوئی معتبر شہادت ایسی نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے بعد جو چار خلیفہ ہوئے وہ ان کے اقوال، افعال اورکردار کو کیا اہمیت دیتے تھے، لیکن اگر بحث کی خاطر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ افراد کے معاملات اور قومی اہمیت رکھنے والے مسائل کا فیصلہ کرنے میں بڑے وسیع پیمانے پر حدیث کو استعمال کرتے تھے تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے کیوں کہ وہ ہماری بہ نسبت بلحاظِ زمانہ بھی اور بلحاظِ مقام بھی محمد رسول اللّٰہﷺ سے قریب تر تھے۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ زمانۂ گزشتہ کے کسی واقعے کے متعلق جوشہادت زیادہ سے زیادہ معتبر ہونی ممکن ہے۔ اتنی ہی معتبر شہادت اس امر کی موجود ہے کہ چاروں خلفائے راشدین سختی کے ساتھ سُنّت رسولﷺ کی پابندی کرتے تھے، اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کے زمانے کے حالات حضورﷺ کے زمانے کے حالات سے مشابہ تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کے بعد ان کے نزدیک اِسلامی قانون کا آئینی مرجع سُنّت تھی جس سے تجاوز کرنے کا وہ اپنے آپ کو قطعًا مجاز نہ سمجھتے تھے۔ اس باب میں ان کے اپنے صریح اقوال ہم اسی کتاب کے صفحات پر (بہ عنوان: اتباع سنت اور خلفائے راشدین) نقل کر چکے ہیں۔ نیز اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری سے اس چودہویں صدی تک ہر صدی کا فقہی لٹریچر علی التواتر خلفائے راشدین کا یہی مسلک بیان کر رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں بعض لوگ ان کے سُنّت سے تجاوز کی جو نظیریں پیش کر رہے ہیں ان میں سے ایک بھی فی الحقیقت اس بات کی نظیر نہیں ہے کہ کسی خلیفۂ راشد نے کبھی عملًا سُنّت سے تجاوزکیا ہے، یا اصولاً اپنے آپ کو ایسے تجاوز کا مجاز سمجھا ہے۔ ان میں سے بعض نظائر کی حقیقت بھی ہم اسی کتاب کے صفحات پر ظاہر کر چکے ہیں۔({ FR 7021 })