"” رسول اللہ ﷺ کے بعد افضل الناس ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۔ یہ سب حق پر تھے اور حق کے ساتھ رہے ۔ [18] عقیدہ طحاویہ میں اس کی مزید تشریح اس طرح کی گئی ہے : "” ہم رسول اللہ ﷺ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تمام امت پر افضل قرار دیتے ہوئے سب سے پہلے خلافت ان کے لیے ثابت کرتے ہیں ، پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے ، اور یہ خلفائے راشدین وائمہ مہدیین ہیں ۔””[19] اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ ذاتی طورپر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتے تھے[20] ۔ او ر ان کی ذاتی شخصی رائے یہ بھی تھی کہ ان دونوں بزرگوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی جاسکتی [21]۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب کے موقع پر اکثریت سے جو فیصلہ ہو چکا تھا اس کو تسلیم کرتے ہوئے انھوں نے اجتماعی عقیدہ یہی قرار دیا کہ فضیلت کی ترتیب بھی وہی ہے جو خلافت کی ترتیب ہے ۔