فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

خدا کے دین کا صحیح تصور:

برادران مکرم‘ اللہ کو اپنا خالق و مالک اور پروردگار مان لینے کا لازمی تقاضا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم بھی یہی ہے کہ:
یایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطن۔
(البقرہ: ۲۰۸)
’’اے اللہ پر ایمان لانے کے دعوے دارو‘ اگر تم نے فی الواقع اس کی بندگی کی راہ یعنی اسلام کو قبول کیا ہے تو پھر پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘
یہ صورت کہ کچھ معاملات میں خدا کی بات مانو اور دوسرے معاملات میں من مانی کرو یا کسی دوسرے کے پیچھے چلو‘ خدا کے ہاں قابل قبول نہیں ہے بلکہ یہ اس کے غضب اور غصہ کو اس درجہ بھڑکانے والی ہے کہ اس روش پر عامل امت کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
افتومنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض فما جزآء من یفعل ذالک منکم الاخزی فی الحیوۃ الدنیا و یوم القیمۃ یردون الٰی اشد العذاب۔ وما اللہ بغافل عما تعملون۔ (البقرہ: ۸۵)
’’کیا تم خدا کی کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو‘ خود ہی بتائو کہ دعوائے ایمان کے ساتھ جو لوگ (خدا کی کتاب کے بارے میں) یہ روش اختیار کریں‘ ان کی سزا ان کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں بھی وہ ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور قیامت کے روز شدید ترین عذاب سے دو چار کیے جائیں؟ یاد رکھو‘ اللہ تمہاری حرکات سے بے خبر نہیں ہے‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
یا یھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون؟ کبر مقتاعند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون۔ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان موصوص۔
(الصف۔ ۲۔۴)
’’اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘
وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من اھرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالاً مبیناً۔ (الاحزاب:۳۶)
’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘
یعنی ایسے شخص کے گم کردہ راہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن مجید میں صاف صاف اعلان فرما دیا گیا ہے:
فلا وربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجاً مما قضیت و یسلموا تسلیماً۔ (النساء: ۶۵)
’’اے محمدؐ ‘ تیرے رب کی قسم‘ یہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ اپنے تمام باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو‘ اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں‘ بلکہ سربسر تسلیم کر لیں‘‘
اللہ تعالیٰ کے انہی ارشادات کی صراحت فرماتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یومن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ۔
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش نفس کو بھی اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لے کر آیا ہوں‘‘
قرآن اور حدیث کی ان تصریحات سے یہ امر صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کو قبول کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ خدا کی کتاب کو بنیادی ضابطہ زندگی کو بنا کر اپنی پوری زندگی اس کے رسولؐ کی رہنمائی میں بسر کی جائے‘ ورنہ خدا اور رسول کی عملی اطاعت اور پیروی کے بغیر توحید کا محض اقرار ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔ کلمہ توحید کے اقرار کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے بعد اب اس آدمی کو پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات (عقائد و افکار‘ اخلاق و اطوار‘ تہذیب و تمدن‘ معیشت اور معاشرت‘ سیاست اور عدالت‘ انفرادی اور اجتماعی روابط‘ سب) کا مرکز و محور اور مبداء و مرجع قرآن و سنت ہوں گے اور اس کی تمام سعی و جہد رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہوگی۔
لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دوسرے نظام ہائے زندگی کے بارے میں تو سبھی لوگ یہ خوب سمجھتے ہیں بلکہ پوری شرح صدر کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں کہ جس نظام زندگی اور رواج زمانہ کو اختیار کیا جائے اس کے فوائد و برکات سے پوری طرح فیض یاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے دل و دماغ اور فکر و نظر سے لے کر لب و لہجہ اور شکل و شباہت تک سب کچھ اس کے مطابق ڈھال لینا چاہئے۔ لیکن اسلام اور اسلامی نظام زندگی کے بارے میں ان کا دستور یہ ہے کہ ان کی تمام برکات و حسنات صرف ان کا نام لے دینے اور زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کر دینے سے حاصل ہو جانی چاہئیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ نہ صرف واحد معبود (الٰہ الناس) ہے‘ بلکہ وہی اپنی مخلوق کا پالنے والا (رب الناس) اور ان کا فرمانروائے حقیقی (ملک الناس) ہے۔ اس کے ساتھ نہ کوئی الوہیت میں شریک ہے‘ نہ ربوبیت میں اور نہ بادشاہی میں اور اس نے اپنے بندوں کو ایک پورا نظام زندگی دے کر انہیں حکم دیا ہے کہ:
یا یھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا اخطوات الشیطن۔
(البقرہ: ۲۰۸)
’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے (اپنے سب کچھ سمیت) اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘
ظاہر بات یہ ہے کہ جس معاملے میں بھی آدمی اسلام کی راہ اختیار نہیں کرتا اس میں شیطان ہی کی پیروی کرتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ:
ان الحکم الا للہ۔ (یوسف:۴۰)
’’یعنی فیصلہ کرنے اور حکم دینے کے سارے اختیارات اللہ کو ہیں‘‘
لیکن اس کے باوجود اس وقت مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مندر کے بت کی حیثیت دے کر مسجد کی چار دیواری کے اندر محدود رکھنے پر مصر ہیں کہ اسے بس پوجا کے وقت سجدہ کرلیا جائے لیکن زندگی کے باقی امور و معاملات میں اسے کوئی دخل نہ ہوگا‘ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ جو اختیارات ان کے خود ساختہ فرمانروا ان کے رب کو بخوشی دینے پر رضامند ہوں‘ اس حد تک یہ اپنے رب کے احکام پر بھی عمل کرلیں مگر باقی تمام معاملات زندگی شریعت الٰہی سے قطع نظر خدا سے سرکشی و بے نیازی پر مبنی نظام زندگی کی اطاعت اور بندگی میں ہی چلتے اور طے پاتے رہیں۔
اس طرز فکر کے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے رب کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اس سے سودے بازی کرتا ہے۔ اور اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ وہ کن کن معاملات میں اور کس حد تک اطاعت کرے گا‘ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ چنانچہ کہیں تو:
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا۔ (البقرہ: ۲۸۶)
’’اللہ کسی متنفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا‘‘
کو حجت بنا کر ہر اس شے کو اپنی وسعت سے باہر قرار دے لیتا ہے جس میں مال و جان کا کچھ بھی نقصان نظر آتا ہے یا جو نفس کو غیر مرغوب اور جسم و جان کے لیے کچھ تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔ کہیں:
ولا تلقوا بایدیکم الٰی التھلکۃ۔ (البقرہ: ۱۹۵)
’’اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘
کو من گھڑت معنی پہنا کر نہ صرف اپنے لیے اقامت دین کی جدوجہد سے فرار اور نظام باطل سے سازگاری اور اس کی پشتیبانی تک کے لیے جواز نکال لیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے بعض حضرات یہ بھول کر کہ:
یصدون عن سبیل اللہ۔ (الانفال: ۴۷‘ التوبہ: ۳۴‘ ھود:۱۹)
’’وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں‘‘
قرآن نے ان کفار و مشرکین کی صفت بیان کی تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند کردہ دعوت شہادت حق کی راہ روکنے کے لیے اٹھے تھے‘ اپنے ملک میں اٹھنے والی اقامت دین حق کی دعوت سے عام لوگوں کو متنفر منحرف کرنے اور باطل کی قوتوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ پورے قرآن کی دعوت کو نظر انداز کرکے سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام پر طاغوت کی چاکری کا الزام دھر کر‘ ہر نظام باطل کی ہر نوع کی خدمت گزاری کو مسلمانوں کے لیے جائز ہی نہیں ضروری قرار دیتے ہیں۔ ۱؎ اور احکام رجم اور دوسری حدود اللہ کی مثال دے کر اقامت دین کی جدوجہد میں عدم شرکت کے لیے یہ عذر کرتے ہیں کہ بلاشبہ اسلام کا نصب العین بھی وہی ہے اور اس کے حصول کے لیے طریق کار بھی وہی ہے جو تحریک اسلامی نے اختیار کیا ہے‘ لیکن جس طرح رجم کا حکم حق اور فرض ہونے کے باوجود غلبہ کفر کی وجہ سے اب قابل عمل نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام اور اس کے قیام کی جدوجہد بھی فرض و واجب اور صحیح و برحق ہونے کے باوجود اب ممکن العمل نہیں ہے۔ حالانکہ
لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا میں مذکور وسعت کا فیصلہ وہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور حشر کے روز وہ انہی لوگوں کی زندگیوں سے ایک ایک واقعہ کو سامنے لاکر بتائے گا کہ کس طرح ان کے اپنے محبوب مقاصد اور مرغوب نفسی مشاغل کے لیے تو ساری ہی وسعتیں ان کے اندر موجود تھیں اور یہ عذرات اور بہانے صرف اس کے دین کی اقامت کی جدوجہد کی حد تک ہی ان کی راہ میں حائل تھے۔ مزید برآں: لا یکلف اللہ نفسًا الا وسعھا اور ولا تلقوا باید یکم الی التھلکۃ کی تفسیر مکہ کی گلیوں میں‘ طائف کے بازاروں میں اور بدروحنین کے میدانوں میں خون کی روشنائی سے لکھی ہوئی ان کے سامنے موجود ہے۔۱؎ جہاں تک سیدنا یوسف علیہ السلام پر طاغوت کی جاگیری کے الزام کا تعلق ہے‘ اس کی حقیقت خود قرآن مجید میں ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ‘‘۲؎ کے کلیہ کے ذریعے واضح کر دی گئی ہے کہ ہر نبی واجب الاطاعت بن کر آتا ہے نہ کہ اس لیے کہ وہ کسی دوسرے کی اطاعت اور چاکری کرے۔ اور ہر ممکن التصور نظام باطل کے اندر اسلامی نظام کا ممکن القیام اور اس کے طریق کار کا ممکن العمل ہونا‘ آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہزارہا انبیاء ہر دور اور ہر قسم کے حالات میں کام کرکے ثابت کر چکے ہیں اور پھر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انہی حضرات کے لیے جب اپنے محبوب مفادات و مقاصد اور اعزازات کے حصول کا سوال ہوتا ہے تو اس راہ میں نہ ’’وسعت کی کوئی کمی‘‘ حائل ہوتی ہے‘ نہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کا کوئی اندیشہ رکاوٹ بنتا ہے۔ اور نہ قرآن مجید کے کسی حکم کی کوئی ادنیٰ خلاف ورزی ہوتی ہوئی ان کو نظر آتی ہے۔ صرف اللہ کے دین کے قیام کی جدوجہد کے مطالبہ پر اللہ کے کلام کی یہ تاویلات ان کو سوجھنے لگتی ہیں۔
قل اعوذ برب الناس۔ ملک الناس الٰہ الناس۔ من شرالوسواس الخناس۔ الذی یوسوس فی صدور الناس۔ من الجنۃ والناس۔ (الناس)
’’دعا کیا کرو کہ میں اس اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو نوع انسانی کا خالق و پروردگار بھی ہے‘ مالک و فرمانروا بھی ہے اور خدا بھی‘ چھپ چھپ کر وسوسہ اندازی کرنے والے ہر شیطان سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے‘ خواہ شیاطین جن میں سے ہو یا شیاطین انس میں سے‘‘
میں تمام برادران اسلام کو اور ان حضرات کو بالخصوص جو اللہ کے دین کی اقامت اور سربلندی کی تحریک میں عملاً شریک ہو چکے ہیں‘ توجہ دلاتا ہوں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا جو عہد کلمہ شہادت کے ذریعے کیا ہے‘ اسے ہر آن اور ہر معاملے میں ملحوظ رکھیں اور اپنی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات کی عمارت اسی عہد کی بنیاد پر تعمیر اور استوار کریں‘ یہاں تک کہ ہماری زبان سے نکلنے والا کوئی کلمہ‘ ہمارے دماغ میں آنے والا کوئی خیال‘ ہمارے ہاتھ پائوں اور دوسری قویٰ سے سرزد ہونے والا کوئی فعل اور ہماری روزانہ زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں سے کوئی معاملہ بھی ہمارے اس عہد کے منافی نہ ہو بلکہ ہمارے سب معاملات و مشاغل مثبت طور پر اللہ کے نازل کردہ نظام حیات کا عملی نمونہ اور اس کے آئینہ دار ہوں اور ہماری پوری زندگی اور اس کی مصروفیتیں شریعت الٰہی کی رسی سے اطاعت الٰہی کے کھونٹے سے بندھی عقیدۂ توحید کے گرد اس طرح گھوم رہی ہوں کہ دنیا
وما خلقت الجن و الانس الا لیبعدون۔ (الذاریات: ۵۶)
’’میں(اللہ) نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس کام کے لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں یعنی میری مقررہ کردہ راہ حیات سے سرمو ادھر ادھر نہ ہوں‘‘
کی عملی تفسیر دیکھ لے۔ یہی اصل دین اور سچی خدا پرستی ہے‘ اسی کا نام تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور اسی کا حکم
’’وما امر واالا لیبعدواللہ مخلصین لہ الدین۔ (الینہ: ۵)
’’ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین (پورے نظام اطاعت) کو اس کے لیے خالص کرکے اور بالکل یکسو ہو کر‘‘
میں دیا گیا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل نہ مسلمانوں کے شایان شان ہے اور نہ صحیح نہ جائز۔ کیونکہ ’’اسلام‘‘ کے معنی ہیں: الانقیار لامر اللہ و نھیہ بلا اعتراض۔ یعنی اللہ کے امر و نہی کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کردینا۔
قرآن و سنت کی صریح تعلیمات‘ عقیدۂ توحید کے واضح تقاضوں اور انبیاء علیہم السلام کی زندگی کے عملی نمونے کو نظر انداز کرکے اگر کوئی خیال کرتا ہے کہ محض چلوں‘ مراقبوں اور مجالس وعظ و میلاد کے انعقاد یا اصلاح رسوم کاکام کرکے‘ یا کوئی مدرسہ یا یتیم خانہ قائم کرکے خدمت دین کا حق ادا کر دی گا اور خدا کے مومن و مسلم کی حیثیت سے مسلمانوں پر اقامت دین کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ اس سے وہ سبکدوش ہو جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۱؎ ۔یہ بات سمجھنے کے لیے عقل عام کافی ہے کہ جہاں کروڑوں مسلمانوں کے سامنے اللہ کا دین مغلوب ہو رہا ہو‘ پوری زمین فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن رہی ہو‘ ہر طرف ظلم و ستم کا دور دورہ ہو‘ اور اللہ کا کلمہ نیچا اور غیر اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا ہو‘ وہاں خدا سے سرکشی اور بغاوت کی اس حالت کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی حالت سے بدلنے کے لیے جان لڑائے بغیر اللہ کا قرب اور اس کی خوشنودی کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟
دین حق کا یہی وہ اساسی تصور ہے جسے بار بار ذہن نشین کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پنج وقتہ نماز فرض کرکے یہ انتظام فرمایا تھا کہ نہ صرف دین کی بنیادی حقیقتیں اور اقرار توحید کے مقتضیات و مطالب دن میں کئی کئی مرتبہ بندۂ مومن کے سامنے لائے جاتے رہیں بلکہ ان سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا عہد بھی کم سے کم بتیس مرتبہ روزانہ دست بستہ کھڑا کرکے اس سے لیا جائے تاکہ دوسرے مشاغل زندگی میں مستغرق ہو کر وہ غفلت کا شکار نہ ہو جائے اور نہ اپنے رب کی بندگی سے انحراف و سرکشی کے لیے کسی عذر کی کوئی گنجائش‘ لاعلمی کا کوئی بہانہ یا اتمام حجت میں کوئی کسر باقی رہ جائے…… بلکہ جب خدا کے روبرو حساب کے لیے وہ پیش ہو تو بجز اقبال جرم کے اس کے لیے کوئی اور چارۂ کار نہ ہو۔ غالباً یہی وہ منظر ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
یا معشر الجن والانس الم یاتکم رسول منکم یقصون علیکم ایتی و ینذرو نکم لقاء یومکم ھذا قالوا شھدنا علیٰ انفسنا وغیرتھم الحیوۃ الدنیا و شھدوا علٰی انفسھم انھم کانوا کافرین۔ (الانعام: ۱۳۰)
’’اے جنو‘ اور انسانوں‘ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہیں ہمارے احکام سے آگاہ کرتے تھے اور ہماری اس دن کی ملاقات سے خبردار کرتے تھے؟ وہ (جن اور انسان سب) جواب دیں گے: ہاں‘ ہم خود اپنے خلاف اس کی گواہی دیتے ہیں۔ آج دنیا کی زندگی نے ان لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے مگر اس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ (خدا کے احکام اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کے باوجود) وہ خدا کی نافرمانی کی روش پر چلتے رہے‘‘

شیئر کریں