(و)دوسری طرف میںیہ بھی جانتاتھاکہ ملک کی حکومت اس وقت ایسے لوگوںکے ہاتھ میںہے جوکم حوصلہ بھی ہیںاورپبلک تائیدسے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی پوزیشن کی کمزوری کاشدیداحساس بھی رکھتے ہیں۔ایک معمولی ساخطرہ‘بلکہ خطرے کااندیشہ بھی ان کوبہت جلدی بوکھلادیتاہے اورجب وہ بوکھلاجاتے ہیںتوکوئی بدترسے بدترکارروائی کرنے میںبھی باک نہیںکرتے ۔اسی ماہ جنوری میںجب کہ ڈائریکٹ ایکشن کایہ ریزولیوشن پیش کیاگیاتھا‘دس ہی دن پہلے کراچی میںطلبہ کے ایک معمولی سے ایجی ٹیشن پران لوگوںنے جوظلم وستم ڈھایاتھا، اسے میںاپنی آنکھوںسے دیکھ چکاتھا۔اس صورت حال میںمجھے یقین تھاکہ ڈائریکٹ ایکشن کانام سنتے ہی یہ لوگ بھڑک اٹھیںگے اوروہ کچھ کرگزریںگے جوانگریزبھی غیرقوم ہونے کے باوجودہمارے ساتھ نہ کرتا۔اسی لیے میں چاہتاتھاکہ اپنی قوم کوان برے نتائج سے بچائوںجوسامنے آتے نظرآرہے تھے۔میری نگاہ میںخون مسلماںاتناارزاںنہ تھاکہ میںپنجاب کی زمین پراس کے پانی کی طرح بہائے جانے کوٹھنڈے دل سے گوارہ کرتا۔