ان لوگوں کا تصور حکومت کیا تھا ۔ فرماں روا ہونے کی حیثیت سے یہ اپنے مقام اور اپنے فرائض کے متعلق کیا خیال رکھتے تھے اور اپنی حکومت میں کس پالیسی پر عامل تھے ، ان چیزوں کو انھوں نے خود خلافت کے منبر سے تقریریں کرتے ہوئے برسر عام بیان کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پہلی تقریر جو انھوں نے مسجد نبوی ﷺ میں عام بیعت کے بعد کی ، اس میں وہ کہتے ہیں : "” میں آ پ لوگوں پر حکمران بنایاگیا ہوں حالانکہ میں آپ کا سب سے بہتر آدمی نہیں ہوں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ہے ۔ نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ مجھے ملے ۔ نہ میں نے کبھی خداسے اس کے لیے دعا کی نہ میرے دل میں کبھی اس کی حرص پیدا ہوئی ۔ میں نے تواسے بادل ِ ناخواستہ اس لیے قبول کیا کہ مجھے مسلمانوں میں فتنہ اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتداد برپا ہوجائے کا اندیشہ تھا ۔ میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک بار ِعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے ، جس کے اٹھانے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے ، الا یہ کہ اللہ ہی میری مدد فرمائے ۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے بجائے کوئی اور یہ بار اٹھالے ۔ اب بھی اگر آپ لوگ چاہیں تو اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی اور کو اس کام کے لیے چن لیں ، میری بیعت آپ کے راستے میں حائل نہ ہوگی ۔ آپ لوگ اگر مجھے رسول اللہ ﷺ کے معیار پر چانچیں گے اور مجھ سے وہ توقعات رکھیں گے جو حضور ﷺ سے آپ رکھتے تھے تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا ، کیونکہ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی ۔ اگر میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کیجئے ، اگر غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کردیجئے ۔ سچائی امانت سے اور جھوٹ خیانت ۔ تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اسے دلواؤں اگر خدا چاہے ۔ اور تم میں سے جو طاقت ور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں اگر خدا چاہے ۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اللہ کی راہ میں جدو جہد چھوڑ دے اور اللہ اس پر ذلت مسلط نہ کردے ، اور کسی قوم میں فواحش پھیلیں اور اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کردے ۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کا مطیع ہوں ۔ اور اگر میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے ۔ میں پیروی کرنے والا ہوں ۔ نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں ۔””[24] حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے ایک خطبے میں کہتے ہیں : "” لوگوں ! کوئی حق والا اپنے حق میں اس مرتبے کو نہیں پہنچاہے کہ اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے . . . . . . لوگوں ! میرے اوپر تمہارے جو حقوق ہیں وہ میں تم سے بیان کیے دیتا ہوں ، ان پر تم مجھے پکڑ سکتے ہو۔ میرے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ میں تمہارا خراج اللہ کے عطاکردہ فے میں سے کوئی چیز نہ وصول کروں مگر قانون کے مطابق ، اور میرے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ جو کچھ مال جس طرح میرے پاس آئے اس میں سے کچھ نہ نکلے مگر حق کے مطابق ۔””[25] حضرت ابوبکر رضی اللہ جب شام وفلسطین کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص کو روانہ کررہے تھے ، اس وقت انھوں نے جو ہدایات ان کو دیں ان میں وہ فرماتے ہیں : "” اے عمرو! اپنے کھلے اور چھپے ہر کام میں خدا سے ڈرتے رہو اور اس سے حیاکرو ، کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے . . . . . . آخرت کے لیے کام کرو اور اپنے ہر عمل میں خدا کی رضا کو پیش نظر رکھو ۔ ایسے ساتھیوں کے ساتھ اس طرح پیش آو جیسے وہ تمہاری اولاد ہیں ۔ لوگوں کے راز نہ ٹٹولو اور ان کے ظاہر پر ہی ان سے معاملہ کرو . . . . . . اپنے آپ کو درست رکھو، تمہاری رعیت بھی درست رہے گی ۔””[26] حضرت عمر رضی اللہ عنہ جن لوگوں کو عامل بناکرکہیں بھیجتے تھے ان کو خطاب کر کے کہتے : "” میں تم لوگوں کو امت محمدیہ ﷺ پر اس لیے عامل مقرر کررہا ہوں کہ تم ان کے مالوں اور ان کی کھالوں کے مالک بن جاو بلکہ میں اس لیے تمہیں مقرر کرتا ہوں کہ تم نماز قائم کرو ، لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور عدل کے ساتھ ان کے حقوق تقسیم کرو ۔””[27] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیعت کے بعد جو پہلا خطبہ دیا اس میں انھوں نے فرمایا : "”سنو ! میں پیروی کرنے والا ہوں ، میں نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں ۔ جان لو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی پیروی کرنے کے بعد تین باتیں ہیں جن کی پابندی کا میں تم سے عہد کرتا ہوں ۔ ایک یہ کہ میری خلافت سے پہلے تم نے باہمی اتفاق سے جو قاعدے اور طریقے مقرر کیے تھے ان کی پیروی کروں گا ۔ دوسرے یہ کہ جن معاملات میں پہلے کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہوا ہے ان میں سب کےمشورے سے اہل خیر کا طریقہ مقرر کروں گا ۔ تیسرے یہ کہ تم سے اپنے ہاتھ روکے رکھوں گا جب تک تمہارے خلاف کوئی کاروائی کرنا قانون کی رو سے واجب نہ ہوجائے ۔””[28] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت قیس بن سعد کو مصر کا گورنر مقرر کرکے جو فرمان اہل مصر کے نام بھیجا تھا اس میں وہ فرماتے ہیں : "”خبرداررہو !تمہارا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کریں اور تمہارے معاملات کو اللہ کے مقرر کردہ حق کے مطابق چلائیں اور نبی ﷺ کی سنت کو نافذ کریں اور تمہارے درپردہ بھی تمہارے ساتھ خیر خواہی کریں ۔”” اس فرمان کو مجمع عام میں سنانے کے بعد حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ "” اگر ہم اس طریقے پر تمہارے ساتھ برتاو نہ کریں تو ہماری کوئی بیعت تم پر نہیں ہے ۔[29] ایک گورنر کو حضرت علی رضی اللہ نےلکھا : "”اپنے اور رعیت کے درمیان لمبے چوڑے پردے حائل نہ کرو ۔ حکام کا رعیت سے پردہ کرنا نظر کی تنگی اور علم کی کمی کا شاخسانہ ہے ۔ اس پردے کی وجہ سے ان کو صحیح حالات معلوم نہیں ہوتے ، چھوٹی باتیں ان کے لیے بڑی بن جاتی ہیں اور بڑی باتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں ، اچھائی ان کے سامنے برائی بن کر آتی ہے اور برائی اچھائی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، اور حق باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا ہے ۔””[30] یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا محض قول ہی نہ تھا بلکہ ان کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا ۔ کوفہ کے بازاروں میں خود درہ لے کے نکلتے ، لوگوں کو برائیوں سے روکتے ، بھلائیوں کی تلقین کرتے اور تاجروں کی ایک ایک منڈی کا چکر لگا کر یہ دیکھتے تھے کہ کاروبار میں بددیانتی تو نہیں کررہے ہیں ۔ اس روزمرہ کی گشت میں کوئی اجنبی آدمی ان کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ بلادِ اسلام کا خلیفہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے ، کیونکہ نہ ان کے لباس سے بادشاہی کی شان ظاہر ہوتی تھی اور نہ ان کے آگے کوئی چوب دار ہٹو بچو کہتا پھرتا تھا ۔[31] ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے برسر عام اعلان کیا کہ "” میں نے اپنے عاملوں کواس لیے نہیں بھیجا کہ وہ تم لوگوں کو پیٹیں اور مال چھینیں ، بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ تمہیں تمہارا دین اور تمہارے نبی ﷺ کا طریقہ سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے خلاف عمل کیا گیا ہو وہ میرے پاس شکایت لائے ، خدا کی قسم ! میں اس سے بدلہ لوں گا ۔”” اس پر حضرت عمرو بن العاص (مصر کے گورنر ) نے اٹھ کر کہا :”” اگر کوئی شخص مسلمانوں کا والی ہو اور تادیب کی غرض سے کسی کو مارے تو کیا آپ اس سے بدلہ لیں گے ؟”” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :”” ہاں خداکی قسم !میں اس سے بدلہ لوں گا ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے ۔””[32] ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام گورنروں کو حج میں طلب کیا او رمجمع عام میں کھڑے ہوکر کہا کہ ان لوگوں کے خلاف جس شخص کو کسی ظلم کی شکایت ہو وہ پیش کرے ۔پورے مجمع میں سے صرف ایک شخص اٹھا اور اس نے حضرت عمروبن العاص کی شکایت کی کہ انھوں نے ناروا طورپر مجھے سو کوڑے لگوائے ہیں تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اٹھو اوران سے اپنا بدلہ لے لو ۔ عمرو بن العاص نے احتجاج کیا کہ آپ گورنروں پر یہ دروازہ نہ کھولیں۔ مگر انھوں نے کہا کہ "”میں نے رسول اللہ ﷺ کو خود اپنے آپ سے بدلہ دیتے دیکھا ہے ، اے شخص اٹھ اور اپنا بدلہ لے لے ۔”” آخر کار عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو پر کوڑے کے بدلے دو اشرفیاں دے کراپنی پیٹھ بچانی پڑی۔[33]