ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو اور بعد کے ’’مولویوں‘‘ نے یہ چیز اپنی طرف سے اس دین میں بڑھا دی ہو، ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں یہاں مختصراً اس کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط وَنُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَاِنْ نَّکَثُوْٓ ا اَیْمَانَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِلا اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَo (التوبہ: ۹:۱۱۔۱۲)
’’پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔ ہم اپنے احکام اُن لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کر رہے ہیں جو جاننے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ عہد (یعنی قبول اسلام کا عہد) کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمھارے دین پر زبان طعن دراز کریں تو پھر کفر کے لیڈروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ وہ اس طرح باز آجائیں۔‘‘
یہ آیت سورۂ توبہ میں جس سلسلے میں نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ۹ ھ میں حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اعلان براء ت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان کا مفاد یہ تھا کہ جو لوگ اب تک خدا اور اس کے رسول سے لڑتے رہے ہیں اور ہر طرح کی زیادتیوں اور بدعہدیوں سے خدا کے دین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اُن کو اب زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ اپنے معاملے پر غو کرلیں۔ اسلام قبول کرنا ہو تو قبول کرلیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ملک چھوڑ کر نکلنا چاہیں تو نکل جائیں، مدت مقررہ کے اندر ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو لوگ ایسے رہ جائیں گے جنھوں نے نہ اسلام قبول کیا ہو اور نہ چھوڑا ہو اُن کی خبر تلوار سے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں فرمایا گیا کہ ’’اگر وہ توبہ کرکے ادائے نماز و زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں، لیکن اگر اس کے بعد وہ پھر اپنا عہد توڑ دیں تو کفر کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔‘‘ یہاں عہد شکنی سے مرادکسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی۔ بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کے معنی ’’اقرار اسلام سے پھر جانا‘‘ متعین کر دیتا ہے۔ اور اس کے بعدفَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔