یہ تو ہے قرآن کا حکم۔ اب حدیث کی طرف آیئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(۱) من بدل دینہ فاقتلوہ ۔
’’جو شخص (یعنی مسلمان) اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔‘‘
یہ حدیث حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت خالدبن ولید اور متعدد دوسرے صحابہ سے مروی ہے اور تمام معتبر کتب حدیث میں موجود ہے۔
(۲) حضرت عبداللہؓ بن مسعودروایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یحل دم امرء مسلم یشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثٰلث: النفس بالنفس، و الثیب الزانی، و المفارق لدینہ التارک للجماعۃ۔ (بخاری کتاب الدیات، و مسلم کتاب القاسمہ و المحاربین و القصاص و الدیات، و ابوداؤد کتاب الحدود باب لحکم فی من ارتد)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مسلمان ہو اور شہادت دیتا ہو اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس بات کی کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اس کا خون تین جرائم کے سوا کسی صورت میں حلال نہیں: ایک یہ کہ اس نے کسی کی جان لی ہو اور قصاص کا مستحق ہوگیا ہو، دوسرے یہ کہ وہ شادی شدہ ہو اور زنا کرے، تیسرے یہ کہ اپنے دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے۔‘‘
(۴) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل دمرامرء مسلم الا رجل زنی بعد احصانہ او کفر بعد اسلامہ او النفس بالنفس (نسائی باب ذکرمایحل بہ دم المسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں الایہ کہ اس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کی ہو، یا مسلمان ہونے کے بعد کفر اختیارکیا ہو، یا کسی کی جان لی ہو۔‘‘
(۴) حضرت عثمانؓ کی روایت ہے:
سمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یحل دم امرء مسلم الا باحدیٰ ثلٰث‘رجل کفر بعد اسلامہ او زنی بعد احصانہ او قتل نفسا بغیر نفس۔ (نسائی باب ایضاً)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے بجز تین صورتوں کے۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد کافر ہوگیا ہو، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہونے کے بعد اس نے زنا کی ہو، تیسرے یہ کہ وہ قتل کا مرتکب ہو بغیر اس کے کہ اسے جان کے بدلے جان لینے کا حق حاصل ہوا ہو۔‘‘
حضرت عثمانؓ ہی سے دوسری روایت ہے:
سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یحل دم امرئٍ مسلم الا باحدیٰ ثلٰث رجل زنٰی بعد احصانہٖ فعلیہ الرجم اوقتل عمدًا فعلیہ القووا و ارتد بعد اسلامہ فعلیہ القتل۔ (نسائی باب الحکم فی المرتد)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین جرائم کی پاداش میں: ایک یہ کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کی ہو، اس کی سزا سنگساری ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی نے عمداً قتل کا ارتکاب کیا ہو، اس پر قصاص ہے۔ تیسرے یہ کہ کوئی اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہو، اس کی سزا قتل ہے۔‘‘
تاریخ کی تمام معتبر کتابوں سے ثابت ہے کہ یہ حدیث حضرت عثمانؓ نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر ہزاروں آدمیوں کے سامنے اس وقت بیان کی تھی جب کہ باغی آپ کے مکان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور آپ کے قتل کے درپے تھے۔ باغیوں کے مقابلے میں آپ کے استدلال کی بنا یہ تھی کہ اس حدیث کی رو سے تین جرائم کے سوا کسی چوتھے جرم میں ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے اور مَیں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا ہے، لہٰذا مجھے قتل کرکے تم لوگ خود مجرم قرار پائو گے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح یہ حدیث حضرت عثمان کے حق میں باغیوں پر صریح حجت بن رہی تھی۔ اگر یہ امر ذرہ برابر بھی مشتبہ ہوتا کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں، تو سیکڑوں آوازیں بلند ہو جاتیں کہ آپ کا بیان غلط ہے یا مشکوک ہے، لیکن باغیوں کے پورے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی اس حدیث کی صحت پر اعتراض نہ کرسکا۔
(۵) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ:
ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثہ الی الیمن ثم ارسل معاذ بن جبل بعد ذالک فلما قدم قال ایھا الناس انی رسول رسول اللہ الیکم فالقٰی لہ ابوموسٰی وسادۃ لیجلس علیھا فاتٰی رجل کان یھودیا فاسلم ثم کفر فقال معاذ لا اجلس حتٰی یقتل قضاؤ اللّٰہ و رسولہٖ ثلٰث مرات فلما قتل قعد (نسائی، باب حکم المرتد۔ بخاری باب حکم المرتد و المرتدۃ و استتابتہم ۔ ابودائود، کتاب الحدود باب الحکم فی من ارتد)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو (یعنی حضرت ابوموسیٰ کو) یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا پھر اس کے بعد معاذ بن جبل کو ان کے معاون کی حیثیت سے روانہ کیا۔ جب معاذ وہاں پہنچے تو انھوں نے اعلان کیا کہ لوگو! میں تمھاری طرف اللہ کے رسول کا فرستادہ ہوں۔ ابوموسیٰ نے ان کے لیے تکیہ رکھا تاکہ اس سے ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ اتنے میں ایک شخص پیش ہوا جو پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا پھر یہودی ہوگیا۔ معاذ نے کہا: مَیں ہرگز نہ بیٹھوں گا جب تک یہ شخص قتل نہ کر دیا جائے، اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔ معاذ نے یہ بات تین دفعہ کہی۔ آخر کار جب وہ قتل کر دیا گیا تو معاذ بیٹھ گئے۔‘‘
خیال رہے کہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیش آیا۔ اس وقت حضرت ابوموسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر کی حیثیت میں اور حضرت معاذ وائس گورنر کی حیثیت میں تھے۔ اگر ان کا یہ فعل واقعی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر مبنی نہ ہوتا تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر باز پرس فرماتے۔
(۶) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
کان عبداللّٰہ بن ابی سرح یکتب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فازلہ الشیطان فَاَلْحق بالکفار فامر بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقتل یوم الفتح فاستجار لہ عثمان ابن عفان فاجارہ رسول اللّٰہ۔(ابودائود، کتاب الحدود، باب الحکم فی من ارتد)
’’عبداللہ بن ابی سرح کسی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب (سکرٹری) تھا۔ پھر شیطان نے اس کو پھسلا دیا اور کفار سے جاملا۔ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ مگر بعد میں حضرت عثمان نے اس کے لیے پناہ مانگی اور رسول اللہ نے اس کو پناہ دے دی۔‘‘
اس آخری واقعہ کی تشریح حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت میں ہم کو یہ ملتی ہے:
لما کان یوم فتح مکۃ اختبا عبداللّٰہ ابن سعد بن ابی سرح عند عثمان بن عفان فجاء بہ حتی اوقفہ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ بایع عبداللّٰہ فرفع رأسہ فنظر الیہ ثلٰثاً کل ذٰلک یابی فبایعہ بعد ثلٰث ثم اقبل علٰی اصحابہٖ فقال اما فیکم رجل رشید یقوم الٰی ھذا حین رانی کففت یدی عن بیعتہٖ فیقتلہ فقالوا ما ندری یا رسول اللّٰہ ما فی نفسک الا او مأت الینا بعینک قال انہ لا ینبغی لنبی ان تکون لہ خائنۃ الاعین۔ (ابودائود، ایضاً)
’’جب مکہ فتح ہوا تو عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے حضرت عثمانؓ بن عفان کے دامن میں پناہ لی۔ حضرت عثمانؓ اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! عبداللہ کی بیعت قبول فرما لیجیے۔ حضورؐ نے سر اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا اور چپ رہے۔ تین دفعہ یہی ہوا اور آپ اس کی طرف بس دیکھ دیکھ کر رہ جاتے تھے۔ آخر تین دفعہ کے بعد آپ نے اس کو بیعت میں لے لیا۔ پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمھارے اندر کوئی ایسا بھلا آدمی موجود نہ تھا کہ جب اس نے دیکھا کہ میں نے بیعت سے ہاتھ روک رکھا ہے تو آگے بڑھتا اور اس شخص کو قتل کر دیتا؟ لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے آنکھ سے اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ اس پرحضورؐ نے فرمایا کہ ایک نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آنکھوں کی چوری کرے۔‘‘
(۷) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
ان امرأۃ ارتدت یوم اُحد فامر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان تُستأب فان تابت والا قتلت۔ (بیہقی)
’’جنگ اُحد کے موقع پر (جب کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی) ایک عورت مرتد ہو گئی۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے توبہ کرائی جائے اور اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دی جائے۔‘‘
(۸)حضرت جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے:
ان امرأۃ ام رومان ارتدت فامر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بان یعرض علیھا الاسلام فان تابت والا قتلت۔ (دار قطنی، بیہقی)
’’ایک عورت ام رومان (یا ام مروان) نامی مرتد ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے سامنے پھر اسلام پیش کیا جائے، پھر وہ توبہ کرلے تو بہتر ورنہ قتل کر دی جائے۔‘‘
بیہقی کی دوسری روایت اس سلسلے میں یہ ہے کہ فابت ان تسلم فقتلت ’’اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، اس بنا پر قتل کر دی گئی۔‘‘