الف۔ یہ بات مسلمات شریعت میں ہے کہ سُنّت واجب الاتباع صرف وہی اقوال وافعال رسولa ہیں جو حضورa نے رسولa کی حیثیت سے کیے ہیں۔ شخصی حیثیت سے جو کچھ آپa نے فرمایا،یا عملًا کیا ہے، وہ واجب الاحترام تو ضرور ہے مگر واجب الاتباع نہیں ہے۔ شاہ ولی اللّٰہ صاحب نے حجۃ اللّٰہ البالغہ میں بَابُ بَیَانِ اَقْسَامِ عُلُوْمِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے عنوان سے اس پر مختصر مگر بڑی جامع بحث کی ہے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم نے ایک پورا باب ہی اس اصول کی وضاحت میں مرتب کیا ہے اور ان کا عنوان یہ رکھا ہے: بَابُ وُجُوْبِ اِمْتِثَالِ مَاقَالَہ‘ شَرْعًا دُوْنَ مَاذَکَرَہ‘صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَّعَایِشِ الدُّنْیَا عَلٰی سَبِیْلِ الرَّاْیِ(یعنی باب اس بیان میں کہ واجب صرف ان ارشادات کی پیروی ہے جو نبی a نے شرعی حیثیت سے فرمائے ہیں نہ کہ ان باتوں کی جو دُنیا کے معاملات میں آں حضورaنے اپنی رائے کے طور پر بیان فرمائی ہیں)، لیکن سوال یہ ہے کہ حضورa کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں فرق کرکے یہ فیصلہ آخر کون کرے گا اور کیسے کرے گا کہ آپa کے افعال واقوال میں سے سُنّت واجب الاتباع کیا چیز ہے اور محض ذاتی وشخصی کیا چیز؟ ظاہر ہے کہ ہم بطور خود یہ تفریق وتحدید کر لینے کے مجاز نہیں ہیں۔ یہ فرق دو ہی طریقوں سے ہو سکتا ہے: یا تو حضورa نے اپنے کسی قول وفعل کے متعلق خود تصریح فرما دی ہو کہ وہ ذاتی وشخصی حیثیت میں ہے یا پھر جو اصول شریعت آں حضورaکی دی ہوئی تعلیمات سے مستنبط ہوتے ہیں ان کی روشنی میں محتاط اہل علم یہ تحقیق کریں کہ آپ کے افعال واقوال میں سے کس نوعیت کے افعال واقوال آپ کی پیغمبرانہ حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کس نوعیت کی باتوں اور کاموں کو شخصی وذاتی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مسئلے پر زیادہ تفصیلی بحث میں اپنے ایک مضمون میں کر چکا ہوں جس کا عنوان ہے: رسولa کی حیثیتِ شخصی اور حیثیتِ نبویa۔ (ترجمان القرآن،دسمبر ۱۹۵۹ء)