فاضل جج فرماتے ہیں: ’’یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر وہ غلطیاں کر سکتے تھے اور یہ حقیقت خود قرآن میں تسلیم کی گئی ہے۔‘‘ اس کے متعلق اگر قرآن کا تتبع کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے صرف پانچ مواقع پر نبیﷺ کو غلطی پر تنبیہہ فرمائی ہے۔ ایک سورۂ انفال آیت ۶۷۔۶۸ میں، دوسرے سورہ توبہ آیت ۴۳ میں، تیسرے سورۂ احزاب آیت ۳۷ میں، چوتھے سورۂ تحریم آیت ۱ میں، پانچویں سورۂ عبس آیت ۱۔۱۰ میں، چھٹا مقام جہاں گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاید یہاں کسی غلطی پر تنبیہہ کی گئی ہے وہ سورۂ توبہ آیت ۸۴ ہے۔ پورے ۲۳ سال کے زمانۂ نبوت میں ان پانچ یا چھ مواقع کے سوا قرآن مجید میں نہ حضورﷺ کی کسی غلطی کا ذکر آیا ہے، نہ اس کی اصلاح کا۔ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس پورے زمانے میں حضورﷺ براہ راست اللّٰہ تعالیٰ کی نگرانی میں فرائضِ نبوت انجام دیتے رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس بات پر نگاہ رکھتا رہا ہے کہ اس کا نمایندۂ مجاز کہیں اس کی غلط نمایندگی اور لوگوں کی غلط راہ نُمائی نہ کرنے پائے، اور ان پانچ یا چھ مواقع پر حضورﷺ سے جو ذرا سی چوک ہو گئی ہے اس پر فورًا ٹوک کر اس کی اصلاح کر دی گئی ہے۔ اگر ان چند مواقع کے سوا کوئی اور غلطی آپ سے ہو جاتی تو اس کی بھی اسی طرح اصلاح کر دی جاتی جس طرح ان غلطیوں کی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا یہ چیز حضورﷺ کی راہ نُمائی پر سے ہمارا اطمینان رخصت کر دینے کے بجائے اس کو اور زیادہ مضبوط کر دینے والی ہے۔ ہم اب یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہہ حضورﷺ کی ۲۳ سالہ پیغمبرانہ زندگی کا پورا کارنامہ خطا اور لغزش سے بالکل پاک ہے اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا (approval) حاصل ہے۔