یہ پالیسی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں شروع ہوگئی تھی ۔امام زہری ؒ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور چاروں خلفاء راشدین کے عہد میں سنت یہ تھی کہ نہ کافر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے ، نہ مسلمان کافر کا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ حکومت میں مسلمان کو کافر کاوارث قرار دیا اور کافر کو مسلمان کا وارث قرار نہ دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے آکر اس بدعت کو موقوف کیا ۔ مگر ہشام بن عبدالملک نے اپنے خاندان کی روایت کو پھر بحال کردیا۔ [25] حافظ ابن کثیر ؒ کہتے ہیں کہ دِیت کے معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سنت کو بدل دیا ۔ سنت یہ تھی کہ معاہد کی دِیت مسلمان کے برابر ہوگی ،مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو نصف کردیا اور باقی نصف خود لینی شروع کردی ۔ [26] ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود ، اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر ، خطبوں میں برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے تھے ، حتی کہ مسجد نبویﷺ میں منبر رسول ﷺ پر عین روضہ نبوی ؐ کے سامنے حضور ؐ کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے ۔[27] کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا، شریعت تو درکنا ر ،انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طورپر جمعے کے خطبے کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤنا فعل تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس روایت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں سب علی کی جگہ یہ آیت پڑھنی شروع کردی إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠90 النحل ﴾ مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی ۔ کتاب وسنت کی روسے پورے مال ِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل ہونا چاہیے اور باقی چار حصے اس فوج میں تقسیم کیے جانے چاہیئں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو ۔ لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ مال غنیمت میں سے چاندی سونا ان کے لیے الگ نکال لیا جائے ، پھر باقی مال شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔[28] زیاد بن سمیہ کا استلحاق بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان افعال میں سے ہے جن میں انھوں نے سیاسی اغراض کے لیے شریعت کے ایک مسلم قاعدے کی خلاف ورزی کی تھی ۔ زیاد طائف کی ایک لونڈی سمیہ کے پیٹ پیدا ہواتھا ۔ لوگوں کا بیان یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد جناب ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اس لونڈی سے زنا کا ارتکاب کیاتھا اور اسی سے وہ حاملہ ہوئی ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خود بھی ایک مرتبہ اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ زیاد انھی کے نطفے سے ہے ۔ جوان ہوکر یہ شخص اعلی ٰ درجے کا مدبر، منتظم ، فوجی لیڈر اور غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ثابت ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وہ آپ کا زبردست حامی تھا اور اس نے بڑی اہم خدمات انجام دی تھیں۔ ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنا حامی ومددگار بنانے کے لیے اپنے والد ماجد کی زناکاری پر شہادتیں لیں اور اس کا ثبوت بہم پہنچایا کہ زیاد انھی کا ولدالحرام ہے ۔ پھر اسی بنیاد پر اسے اپنا بھائی اور اپنے خاندان کافرد قرار دیا ۔ یہ فعل اخلاقی حیثیت سے جیسا کچھ مکروہ ہے وہ تو ظاہر ہی ہے ، مگر قانونی حیثیت سے بھی یہ ایک صریح ناجائز فعل تھا، کیونکہ شریعت میں کوئی نسب زنا سے ثابت نہیں ہوتا ۔ نبی ﷺ کا صاف حکم موجود ہے کہ "” بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر وہ پیدا ہو، اور زانی کے لیے کنکر پتھر ہیں ۔”” ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اسی وجہ سے اس کو اپنا بھائی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس سے پردہ فرمایا۔[29] حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو قانون سے بالاتر قرار دیا اور ان کی زیادتیوں پر شرعی احکام کے مطابق کاروائی کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ ان کو گورنر عبداللہ بن عمروبن غیلان ایک مرتبہ بصرے میں منبر پر خطبہ دے رہاتھا ۔ایک شخص نے دورانِ خطبہ میں اس کو کنکر ماردیا ۔ اس پر عبداللہ نے اس شخص کو گرفتار کرایا اور اس کا ہاتھ کٹوادیا ۔ حالانکہ شرعی قانون کی روسے یہ ایسا جرم نہ تھا جس پر کسی کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس استغاثہ کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں ہاتھ کی دِیت تو بیت المال سے ادا کردوں گا ، مگر میرے عمال سے قصاص لینے کی کوئی سبیل نہیں ۔ [30]زیاد کو جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرے کے ساتھ کوفے کا بھی گورنر مقرر کیا اور وہ پہلی مرتبہ خطبہ دینے کے لیے کوفے کی جامع مسجد کے منبر پر کھڑا ہوا تو کچھ لوگوں نے اس پر کنکر پھینکے ۔ اس نے فورا مسجد کے دروازے بند کرادیے اور کنکر پھینکے والے تمام لوگوں کو ( جن کی تعداد تیس یا اسی تک بیان کی جاتی ہے ) گرفتار کراکے اسی وقت ان کے ہاتھ کٹوا دیے ۔[31] کوئی مقدمہ ان پر نہ چلایا گیا ۔ کسی عدالت میں وہ پیش نہ کیے گئے۔کوئی باقاعدہ قانونی شہادت ان کے خلاف پیش نہ ہوئی ۔ گورنر نے محض اپنے انتظامی حکم سے اپنے لوگوں کو قطع ید کی سزا دے ڈالی جس کے لیے قطعا کوئی شرعی جواز نہ تھا ۔ مگر دربار خلافت سے اس کا بھی کوئی نوٹس نہ لیا گیا ۔ اس سے بڑھ کر ظالمانہ افعال بسر بن ارطاۃ نے کیے جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے حجاز ویمن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قبضے سے نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور پھر ہمدان پر قبضہ کرنے ک”