سوال
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ جہنم نے خدا سے دم گھٹنے کی شکایت کی ا ور سانس لینے کی اجازت مانگی۔اﷲ نے فرمایا تو سال میں دو سانس لے سکتی ہے۔چنانچہ انھی سے دونوں موسم(گرما وسرما) پیدا ہوئے۔ اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم اس حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
جواب
حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت[صحیح] بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الإبراد بالظہر فی شدۃ الحر میں ہے۔اس کا خلاصہ بھی آپ نے صحیح بیا ن نہیں کیا ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’نبی ﷺ نے فرمایا جب گرمی کا زورہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈی کرکے پڑھو(یعنی دیر کرکے پڑھو جب کہ گرمی کی شدت میں کمی ہوجائے) کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی پھونک سے ہے۔جہنم نے اپنے ربّ سے شکایت کی اور کہا کہ اے رب! میرے اجزا ایک دوسرے کو کھائے جاتے ہیں ۔اس کے ربّ نے اُسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دے دی۔ایک مرتبہ جاڑے میں اور دوسری مرتبہ گرمی میں ۔گرمی کا سانس اس شدید ترین گرمی جیسا ہوتا ہے جو تم لوگ موسم گرما میں پاتے ہو،اور سردی کا سانس اس شدید ترین سردی جیسا ہوتا ہے جو تم موسم سرما میں پاتے ہو۔‘‘
اس حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے اس امرطبیعیات پر غورکرلیجیے کہ نبی ﷺ کا اصل مقصد اِ س بیان سے آخر کیا ہوسکتا تھا؟ کیا یہ آپ ایک عالم طبیعیات کی حیثیت سے موسمی تغیرات کے وجوہ بیان فرمانا چاہتے تھے؟یا یہ کہ آپ ایک نبی کی حیثیت سے گرمی کی تکلیف محسوس کرنے والوں کو جہنم کا تصور دلانا چاہتے تھے؟جس شخص نے بھی قرآن اور سیرت نبی پر کچھ غور کیا ہوگا،وہ بلا تأ مُّل کہہ دے گا کہ آپؐ کی حیثیت پہلی نہ تھی،بلکہ دوسری تھی، اور گرمی کی شدت کے زمانے میں ظہر کی نماز ٹھنڈی پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے آپؐ نے جو کچھ فرمایا، اس سے آپؐ کامقصد دوزخ سے ڈرانا اور ان کاموں سے روکنا تھا جو آدمی کو دوزخ کا مستحق بناتے ہیں ۔ اس لحاظ سے آپؐ کا یہ ارشاد قرآن کے اس ارشاد سے ملتا جلتا ہے جو غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا تھا کہ
وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ۰ۭ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ( التوبہ:۸۱)
’’انھوں نے کہا کہ اس شدید گرمی میں جہاد کے لیے نہ نکلو۔اے نبی!ان سے کہوکہ جہنم کی آگ اس گرمی سے زیادہ گرم ہے۔‘‘
جس طرح یہاں قرآن علم طبیعیات کا کوئی مسئلہ بیان نہیں کررہا ہے،اسی طرح نبی ﷺ کی یہ حدیث بھی طبیعیات کا درس دینے کے لیے نہیں ہے۔ قرآن دنیا کی گرمی کا جہنم کی گرمی سے مقابلہ اس لیے کررہا ہے کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو اس گرمی سے گھبرا کر جہاد کے لیے نکلنے سے جی چرا رہے تھے۔اسی طرح نبی ﷺ بھی دنیا کی شدید گرمی اور شدید سردی کودوزخ کی محض دو پھونکوں کے برابر اس لیے بتا رہے ہیں کہ پس منظر میں وہ لوگ موجود تھے جو جاڑے میں صبح کی اورگرمی میں ظہر کی نماز کے لیے نکلنے سے گھبراتے تھے۔چنانچہ مسند احمد میں زید بن ثابتؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ
لَمْ یَکُنْ یُصَلّیِ صَلاۃً أَشَدَّ عَلٰی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِﷺ مِنْھَا۔({ FR 1870 })
’’ظہر کی نماز سے بڑھ کر کوئی نماز اصحاب رسول اﷲ پر شاق نہ تھی۔‘‘
اوراس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جس نے گرمی کے زمانے میں عرب کی دوپہر کبھی دیکھی ہو۔
اس کے بعد اب حدیث کے اصل الفاظ کی طرف آئیے۔
فإِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّمِنْ فِیْحِ جَھَنَّمَ({ FR 1871 }) ’’گرمی کی شدت جہنم کی پھونک سے ہے‘‘کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ دنیا میں گرمی جہنم کی پھونک کی وجہ سے ہوتی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ جہنم کی پھونک کی قسم یا جنس سے ہے۔اس لیے کہ عربی زبان میں لفظ مِنْ بیان جنس کے لیے بکثرت استعمال ہوتا ہے اور خود قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، جیسے: مَا يَفْتَحِ اللہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ (فاطر:۲ ) مَہْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰيَۃٍ (الاعراف:۱۳۲) اور فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ (الحج:۳۰)
رہا آخری فقرہ، تو اس میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ دنیا میں گرمی اور جاڑے کے موسم دوزخ کی ان دو پھونکوں کے سبب سے آتے ہیں ، بلکہ الفاظ یہ ہیں :
فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفْسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُ ونَ مِنْ الْحَرِّ وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنْ الزَّمْهَرِيرِ({ FR 1872 } )
’’پس اس کے ربّ نے اس کو دو سانسوں کی اجازت دی،ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں ،جو اس شدید ترین گرمی جیسا ہے جو تم پاتے ہو اور اس شدید ترین سردی جیسا ہے جو تم پاتے ہو۔‘‘ (ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)