خیر‘ یہ تو سیاسی چالوں کی بات ہے۔ مگر خالص علمی حیثیت سے جب ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیر مسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے‘ تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کا سراغ ملتا ہے۔
پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک ’’مذہب‘‘ سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے۔۔۔ دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک ’’قوم‘‘ سمجھ لیاگیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔
ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلہ کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشہ کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کرکے رکھ دی ہے۔
’’مذہب‘‘ کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں۔۔۔ اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح ’’قوم‘‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیںکہ وہ ایک متجانس گروہِ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھاسکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیر تلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتماؤں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے)۔ لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبّرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔