Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

جہاد کی اہمیت

برادرانِ اسلام!اس سے پہلے ایک مرتبہ مَیں آپ کو دین اور شریعت اور عبادت کے معنی بتا چکا ہوں۔اب ذرا پھر اس مضمون کو اپنے دماغ میں تازہ کر لیجیے کہ:
۱۔ دین کے معنی اطاعت کے ہیں۔
۲۔ شریعت قانون کو کہتے ہیں۔
۳۔ عبادت سے مراد بندگی ہے۔
دین کے معنی
جب آپ کسی کی اطاعت میں داخل ہوئے اور اس کو اپنا حاکم تسلیم کر لیا تو گویا آپ نے اس کا دین قبول کیا۔پھر جب وہ آپ کا حاکم ہوا، اور آپ اس کی رعایا بن گئے تو اس کے احکام اوراس کے مقرر کیے ہوئے ضابطے آپ کے لیے قانون یا شریعت ہوں گے اور جب آپ اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کریں گے،جو کچھ وہ طلب کرے گا حاضر کر دیں گے،جس بات کا وہ حکم دے گا اسے بجا لائیں گے،جن کاموں سے منع کرے گااُن سے رُک جائیں گے،جن حدود کے اندر رہ کر کام کرنا وہ آپ کے لیے جائز ٹھیرائے گا، انھی حدود کے اندر آپ رہیں گے،اوراپنے آپس کے تعلقات و معاملات اور مقدموں اور قضیوںمیں اُسی کی ہدایات پر چلیں گے اوراسی کے فیصلے پر سر جھکائیں گے تو آپ کے اس رویے کا نام بندگی یا عبادت ہوگا۔
اس تشریح سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دین دراصل حکومت کا نام ہے ۔شریعت اس حکومت کا قانون ہے، اور عبادت اس کے قانون اور ضابطے کی پابندی ہے۔آپ جس کسی کو حاکم مان کر اس کی محکومی قبول کرتے ہیں،دراصل آپ اُس کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔اگر آپ کا وہ حاکم اللہ ہے تو آپ دینُ اللّٰہ میں داخل ہوئے۔اگر وہ کوئی بادشاہ ہے تو آپ دینِ بادشاہ میں داخل ہوئے۔ اگر وہ کوئی خاص قوم ہے تو آپ اسی قوم کے دین میں داخل ہوئے، اور اگر وہ خود آپ کی اپنی قوم یا آپ کے وطن کے جمہور ہیں تو آپ دینِ جمہور میں داخل ہوئے۔غرض جس کی اطاعت کا قلادہ آپ کی گردن میں ہے فی الواقع اسی کے دین میں آپ ہیں،اور جس کے قانون پر آپ عمل کر رہے ہیں دراصل اُسی کی عبادت کر رہے ہیں۔
انسان کے دو دین نہیں ہو سکتے
یہ بات جب آپ نے سمجھ لی تو بغیر کسی دقت کے یہ سیدھی سی بات بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کے دودین کسی طرح نہیں ہوسکتے،کیونکہ مختلف حکمرانوں میں سے بہرحال ایک ہی کی اطاعت آپ کر سکتے ہیں۔مختلف قانونوں میں سے بہرحال ایک ہی قانون آپ کی زندگی کا ضابطہ بن سکتاہے،اورمختلف معبودوں میں سے ایک ہی کی عبادت کرنا آپ کے لیے ممکن ہے ۔آپ کہیں گےکہ ایک صورت یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ عقیدے میں ہم ایک کو حاکم مانیں اور واقع میں اطاعت دوسرے کی کریں،پوجا اور پرستش ایک کے آگے کریں اور بندگی دوسرے کی بجالائیں،اپنے دل میں عقیدہ ایک قانون پر رکھیں اور واقع میں ہماری زندگی کے سارے معاملات دوسرے قانون کے مطابق چلتے رہیں۔
مَیں اس کے جواب میں عرض کروں گا، بیشک یہ ہو تو سکتا ہے،اور سکتا کیا معنی ہو ہی رہا ہے ،مگر یہ ہے شرک،اور یہ شرک سر سے پائوں تک جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے ہیں اُس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگرزبان سے آپ کہتے بھی ہیں یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں تو اس کا فائدہ اوراثر کیا ہے ؟آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں۔آپ کا یہ کہنا کہ ہم فلاں کو معبود مانتے ہیں اورآپ کا اپنے ان سروں کو جو گردنوں پر رکھے ہوئے ہیں،سجدے میں اس کے آگے زمین پر ٹیک دینا،بالکل ایک مصنوعی فعل بن کر رہ جاتا ہے، جب کہ آپ واقع میں بندگی دوسرے کی کر رہے ہوں۔
حقیقت میں آپ کا معبود تو وہ ہے اورآپ دراصل عبادت اُسی کی کر رہے ہیںجس کے حکم کی آپ تعمیل کرتے ہیں، جس کے منع کرنے سے آپ رکتے ہیں، جس کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر آپ کام کرتے ہیں،جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں پر آپ چلتے ہیں،جس کے ضابطے کے مطابق آپ دوسروں کامال لیتے اوراپنا مال دوسروں کو دیتے ہیں،جس کے فیصلوں کی طرف آپ اپنے معاملات میں رجوع کرتے ہیں،جس کی شریعت پر آپ کے باہمی تعلّقات کی تنظیم اورآپ کے درمیان حقوق کی تقسیم ہوتی ہے،اور جس کی طلبی پر آپ اپنے دل و ماغ اور ہاتھ پائوں کی ساری قوتیں،اور اپنے کمائے ہوئے مال اور آخر کار اپنی جانیں تک پیش کر دیتے ہیں۔پس اگر آپ کا عقیدہ کچھ ہو، اور واقعہ اس کے خلاف ہو،تو اصل چیز واقعہ ہی ہوگا۔عقیدے کے لیے اس صورت میں سرے سے کوئی جگہ نہ ہو گی،نہ ایسے عقیدے کا کوئی وزن ہی ہوگا۔اگر واقع میں آپ دینِ بادشاہ پر ہوں تو اس میں دینُ اللہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اوراگر واقع میں آپ دینِ جمہور پر ہوں یا دینِ انگریز، یا دینِ جرمن، یا دینِ ملک و وطن پر ہوںتواس میں بھی دینُ اللّٰہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اور اگر فی الواقع آپ دینُ اللّٰہ پر ہوں تو اسی طرح اس میں بھی کسی اور دوسرے دین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔بہرحال یہ خوب سمجھ لیجیے کہ شرک جہاں بھی ہوگا جھوٹ ہی ہوگا۔
ہر دین اقتدار چاہتا ہے
یہ نکتہ بھی جب آپ کے ذہن نشین ہو گیا تو بغیر کسی لمبی چوڑی بحث کے آپ کا دماغ خود اس نتیجے پر پہنچ سکتاہے کہ دین خواہ کوئی سا بھی ہو،لامحالہ اپنی حکومت چاہتا ہے۔دین جمہوری ہو یا دینِ بادشاہی،دینِ اشتراکی ہو یا دینِ الٰہی،یا کوئی اور دین،بہرحال ہر دین کو اپنے قیام کے لیے خود اپنی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے ۔حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے کے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے، جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہو گی۔ اُسی کے دروازے میں آپ داخل ہوں گے اور اسی کے دروازے سے نکلیں گے۔اُسی کی چھت اور اسی کی دیواروں کا سایہ آپ پر ہوگا۔اُسی کے نقشے پر آپ کو اپنی سکونت کا سارا انتظام کرنا ہوگا۔پھر بھلا ایک نقشے کی عمارت میں رہتے ہوئے آپ کا کسی دوسرے طرز، یا دوسرے نقشے کی عمارت اپنے ذہن میں رکھنا ،یا اس کا محض معتقد ہو جانا آخر معنی ہی کیا رکھتاہے ؟وہ خیالی عمارت تو محض آپ کے ذہن میں ہوگی، مگر آپ خود اُس واقعی عمارت کے اندر ہوں گے جو زمین پر بنی ہوئی ہے۔عمارت کا لفظ دماغ والی عمارت کے لیے تو کوئی بولتا نہیں ہے،نہ ایسی عمارت میں کوئی رہ سکتاہے۔عمارت تو کہتے ہی اس کو ہیں اور آدمی رہ اسی عمارت میں سکتا ہے جس کی بنیادیں زمین میں ہوں او ر جس کی چھت اور دیواریں زمین پر قائم ہوں۔
بالکل اسی مثال کے مطابق کسی دین کے حق ہونے کا محض اعتقاد کوئی معنی نہیں رکھتا،اورایسا اعتقاد لاحاصل ہے، جب کہ لوگ عملاً ایک دوسرے دین میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔جس طرح خیالی نقشے کا نام عمارت نہیں ہے، اسی طرح خیالی دین کا نام بھی دین نہیں ہے اور خیالی عمارت کی طرح کوئی شخص خیالی دین میں بھی نہیں رہ سکتا۔دین وہی ہے جس کا اقتدار زمین پر قائم ہو،جس کا قانون چلے،جس کے ضابطے پر زندگی کے معاملات کا انتظام ہو۔لہٰذا ہر دین عین اپنی فطرت ہی کے لحاظ سے اپنی حکومت کا تقاضا کرتا ہے ،اور دین ہوتا ہی اسی لیے ہے کہ جس اقتدار کووہ تسلیم کرانا چاہتا ہے اسی کی عبادت اور بندگی ہو، اور اسی کی شریعت نافذ ہو۔

چند مثالیں
مثال کے طور پر دیکھیے:
دینِ جمہوری
دین ِ جمہوری کا کیا مفہوم ہے؟یہی ناکہ ایک ملک کے عام لوگ خود اپنے اقتدار کے مالک ہوں، ان پر خود انھی کی بنائی ہوئی شریعت چلے اور ملک کے سب باشندے اپنے جمہوری اقتدار کی اطاعت وبندگی کریں۔بتائیے یہ دین کیوں کر قائم ہو سکتا ہے جب تک کہ ملک کا قبضہ واقعی جمہوری اقتدار کو حاصل نہ ہو جائے اور جمہوری شریعت نافذ نہ ہونے لگے؟ اگر جمہور کے بجائے کسی غیر قوم کا، یا کسی بادشاہ کا اقتدار ملک میں قائم ہو، اور اسی کی شریعت چلے تو دینِ جمہوری کہاں رہا؟کوئی شخص دینِ جمہوری پر اعتقاد رکھتا ہو تو رکھا کرے،جب تک بادشاہ کا یا غیر قوم کا دین قائم ہے،دینِ جمہوری کی پیروی تو وہ نہیں کرسکتا۔
دینِ ملوکیّت
دینِ پادشاہی کو لیجیے۔یہ دین جس بادشاہ کو بھی حاکم اعلیٰ قرار دیتا ہے اسی لیے تو قرار دیتا ہے کہ اطاعت اُس کی ہو، اور شریعت اُس کی نافذ ہو۔اگر یہی بات نہ ہوئی تو بادشاہ کو بادشاہ ماننے اور اُسے حاکم ِ اعلیٰ تسلیم کرنے کے معنی ہی کیا ہوئے؟دینِ جمہور چل پڑا ہو، یا کسی دوسری قوم کی حکومت قائم ہو گئی ہو تو دین ِ بادشاہی رہا کب کہ کوئی اس کی پیروی کر سکے۔
دینِ فرنگ
دُور نہ جائیے، اسی دین انگریز کو دیکھ لیجیے جو اس وقت ہندستان کا دین ہے۔{ FR 1646 } یہ دین اسی وجہ سے تو چل رہا ہے کہ تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی انگریزی طاقت سے نافذ ہے۔آپ کی زندگی کے سارے کاروبار انگریز کے مقرر کردہ طریقے پر اور اس کی لگائی ہوئی حدبندیوں کے اندر انجام پاتے ہیں،اور آپ سب اسی کے حکم کے آگے سرِ اطاعت جھکا رہے ہیں۔جب تک یہ دین اس قوت کے ساتھ قائم ہے،آپ خواہ کسی دین کے معتقد ہوں،بہرحال اُس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔لیکن اگر تعزیراتِ ہند اور ضابطۂ دیوانی چلنابند ہو جائے اور انگریز کے حکم کی اطاعت و بندگی نہ ہو تو بتائیے کہ دینِ انگریز کا کیا مفہوم باقی رہ جاتا ہے؟
دینِ اسلام
ایسا ہی معاملہ دینِ اسلام کا بھی ہے۔اس دین کی بنا یہ ہے کہ زمین کا مالک اور انسانوں کا بادشاہ صرف اللہ تعالیٰ ہے،لہٰذا اسی کی اطاعت اور بندگی ہونی چاہیے اور اسی کی شریعت پر انسانی زندگی کے سارے معاملات چلنے چاہییں۔یہ اللہ کے اقتدارِاعلیٰ کا اصول جواسلام پیش کرتا ہے یہ بھی اس غرض کے لیے ہے،اوراس کے سوا کوئی دوسری غرض اس کی نہیں ہے کہ زمین میں صرف اللہ کا حکم چلے،عدالت میں فیصلہ اسی کی شریعت پر ہو،پولیس اسی کے احکام جاری کرے، لین دین اسی کے ضابطے کی پیروی میں ہو،ٹیکس اسی کی مرضی کے مطابق لگائے جائیں اور انھی مصارف میں صَرف ہوں جو اس نے مقرر کیے ہیں،سول سروس اور فوج اسی کے زیرِ حکم ہو،لوگوں کی قوتیں اور قابلیتیں،محنتیں اور کوششیں اسی کی راہ میں ہوں،تقویٰ اور خوف اسی سے کیا جائے،رعیّت اسی کی مطیع ہو،اور فی الجملہ انسان اُس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں۔ظاہر بات ہے کہ یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ خالص الٰہی حکومت نہ ہو۔کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہر دین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصًا و مخلصًا میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہو نا چاہیے،ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی۔ میں ہوں گا تو دین جمہوری نہ ہوگا،دینِ پادشاہی نہ ہوگا،دینِ اشتراکی نہ ہوگا،کوئی بھی دوسرا دین نہ ہوگا،اور اگر کوئی دوسرا دین ہو گا تو میں نہ ہوں گا، اور اس صورت میں محض مجھے حق مان لینے کا کوئی نتیجہ نہیں۔یہی بات ہے جس کو قرآن بار بار دُہراتا ہے، مثلاً:
۱۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ ۰ۥ ۙ حُنَفَاۗءَ (البیّنۃ 98:5)
لوگوں کواس کے سوا کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ سب طرف سے منہ موڑ کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُسی کی عبادت کریں۔
۲۔ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ o (التوبہ 9 :33)
وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت او ر دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کر دے، خواہ شرک کرنے والوں کو ایسا کرنا کتنا ہی ناگوار ہو۔
۳۔ وَ قَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج (الانفال 8:39)
اوراُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے ہو جائے۔
۴۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط (یوسف 12:40)
حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
۵۔ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا o
(الکہف 18:110)
تو جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اُسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔
۶۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط (النسائ 4:60)
تُو نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس ہدایت پر جو تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے نبیوں کی طرف اتاری گئی تھی، مگر چاہتے یہ ہیں کہ فیصلے کے لیے اپنے مقدمات طاغوت کے پاس لے جائیں،حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
۷۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط (النسائ 4:64)
ہم نے جو رسو ل بھی بھیجا ہے اسی لیے تو بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے۔
اوپر مَیں عبادت اور دین اورشریعت کی جو تشریح کر چکاہوں، اس کے بعد آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کہ ان آیات میں قرآن کیا کہہ رہا ہے۔
اسلام میں جہاد کی اہمیت
اب یہ بات بالکل صاف ہو گئی کہ اسلام میں جہاد کی اس قدر اہمیت کیوں ہے۔دوسرے تمام دینوں کی طرح دینُ اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہوسکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیںاور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اوریا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔
یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔آپ کا اعتقاد سچاہو گا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آسکے گی،کجا کہ آپ اس کی خدمت کریں اوراس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانازہر اور حنظل کا کھانا ہو گا اوردین حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا،لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہو، اور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں،خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں،کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں،کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں،اورکتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں۔یہ تو ان لوگوں کا معاملہ ہے جو دوسرے دین پر راضی ہوں۔رہے وہ منافقین جو دوسرے دین کی وفادارانہ خدمت کرتے ہوں، یا کسی اور دین (مثلاً دینِ جمہور)کو لانے کے لیے جہاد کرتے ہوں تو ان کے متعلق میں کیا کہوں؟موت کچھ دور نہیں ہے،وہ وقت جب آئے گا تو جو کچھ کمائی انھوںنے دنیا کی زندگی میں کی ہے خدا خود ہی ان کے سامنے رکھ دے گا۔یہ لوگ اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو سخت حماقت میں مبتلا ہیں۔ عقل ہوتی تو ان کی سمجھ میں خود آجاتا کہ ایک دین کو برحق بھی ماننا اور پھر اس کے خلاف کسی دوسرے دین کے قیام پر راضی ہونا،یا اس کے قیام میں حصّہ لینا، یا اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنا،بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔آگ اور پانی جمع ہوسکتے ہیں،مگر ایمان باللہ کے ساتھ یہ عمل قطعاً جمع نہیں ہوسکتا۔
قرآن اس سلسلے میں جو کچھ کہتا ہے وہ سب کا سب تو اس خطبے میں کہاں نقل کیا جاسکتا ہے، مگر صرف چند آیتیں آپ کو سناتا ہوں:
۱۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِ بِیْنَo
(العنکبوت 29:3-2)
کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض یہ کہہ کر کہ ’’ہم ایمان لائے ‘‘چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالانکہ ان سے پہلے جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہے اس کو ہم نے آزمایا ہے ،پس ضرور ہے کہ اللہ دیکھے کہ ایمان کے دعوے میں سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔
۲۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ط وَلَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ o وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ o
(العنکبوت 29:11-10)
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ ’’ہم ایمان لائے اللہ پر‘‘،مگر جب اللہ کے رستے میں وہ ستایا گیا تو انسانوں کی سزا سے ایسا ڈرا جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے،حالانکہ اگر تیرے رب کی طرف سے فتح آ جائے تو وہی آکر کہے گا کہ ہم تو تمھارے ہی ساتھی تھے۔کیا اللہ جانتا نہیں ہے جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہے؟مگر وہ ضرور دیکھ کر رہے گا کہ مومن کون ہے اور منافق کون۔
۳۔ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط
( آل عمران 3:179)
اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے کہ مومنوں کو اسی طرح رہنے دے جس طرح وہ اب ہیں (کہ سچے اور جھوٹے مدعیانِ ایمان خلط ملط ہیں)۔وہ باز نہ رہے گاجب تک خبیث اور طیّب کو چھانٹ کر الگ الگ نہ کر دے۔
۴۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً ط (التوبہ 9:16)
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ نہیں دیکھا کہ تم میں سے کون ہیں جنھوں نے جہاد کیا اور کون ہیں جنھوں نے اللہ اور رسولؐ اور مومنوں کوچھوڑ کر دوسروں سے اندرونی تعلق رکھا۔
۵۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللہُ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ مَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلَا مِنْہُمْ۝۰ۙ ……… اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ o كَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ o (المجادلہ 58:14 … 21-19)
تُو نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو ساتھ دیتے ہیں اس گروہ کا جس سے اللہ ناراض ہے؟ یہ لوگ نہ تمھارے ہی ہیں نہ انھی کے ہیں………. یہ تو شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور خبردار رہو کہ شیطان کی پارٹی والے ہی نامراد رہنے والے ہیں۔ یقیناً جو لوگ اللہ اور رسول کا مقابلہ کرتے ہیں(یعنی دین حق کے قیام کے خلاف کام کرتے ہیں)وہ شکست کھانے والوں میں ہوں گے۔اللہ کا فیصلہ ہے کہ میں اورمیرے رسول غالب ہوکررہیں گے،یقیناً اللہ طاقت ور اور زبردست ہے۔
مومن صادق کی پہچان ___جہاد
ان آیات سے یہ بات صاف معلوم ہوگئی کہ جب اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین زمین میں قائم ہو، اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا پائے تو اس کے مومن صادق ہونے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اس دینِ باطل کو مٹا کر اس کی جگہ دینِ حق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا نہیں۔اگر کرتا ہے اور کوشش میں اپنا پورا زور صَرف کردیتا ہے ،اپنی جان لڑا دیتا ہے اور ہر طرح کے نقصانات انگیز کیے جاتا ہے تو وہ سچا مومن ہے، خواہ اس کی یہ کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام۔لیکن اگر وہ دینِ باطل کے غلبے پر راضی ہے، یااس کو غالب رکھنے میں خود حصّہ لے رہا ہے تو وہ اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔
تبدیلی بغیر کش مکش کے ممکن نہیں
پھر ان آیات میں قرآن مجید نے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا ہے جو دینِ حق کو قائم کرنے کی مشکلات عذر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ دینِ حق کو جب کبھی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی،کوئی نہ کوئی دینِ باطل قوت اور زور کے ساتھ قائم شدہ تو پہلے سے موجود ہوگاہی۔طاقت بھی اس کے پاس ہوگی ،رزق کے خزانے بھی اسی کے قبضے میں ہوں گے اور زندگی کے سارے میدان پر وہی مسلّط ہوگا۔ایسے ایک قائم شدہ دین کی جگہ کسی دوسرے دین کو قائم کرنے کا معاملہ بہرحال پھولوں کی سیج تو نہیں ہو سکتا۔آرا م اورسہولت کے ساتھ ،میٹھے میٹھے قدم چل کر یہ کام نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔آپ چاہیں کہ جو کچھ فائدے دینِ باطل کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہوئے حاصل ہوتے ہیں، یہ بھی ہاتھ سے نہ جائیں اور دین حق بھی قائم ہو جائے، تو یہ قطعاً محال ہے۔
یہ کام تو جب بھی ہو گا اسی طرح ہو گا کہ آپ ان تمام حقوق کو، ان تمام فائدوں کو اور ان تمام آسائشوں کو لات مارنے کے لیے تیار ہو جائیں جو دینِ باطل کے ماتحت آپ کو حاصل ہوں، اور جو نقصان بھی اس مجاہدے میں پہنچ سکتا ہے اس کو ہمت کے ساتھ انگیز کریں۔جن لوگوں میں یہ کھکھیڑ{ FR 1647 }اٹھانے کی ہمت ہو ،جہاد فی سبیل اللہ انھی کا کام ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔رہے وہ لوگ جو دینِ حق کی پیروی کرنا تو چاہتے ہیں، مگر آرام کے ساتھ،تو ان کے لیے بڑھ بڑھ کر بولنا مناسب نہیں۔ان کا کام تو یہی ہے کہ آرام سے بیٹھے اپنے نفس کی خدمت کرتے رہیں اور جب خدا کی راہ میں مصیبتیںاٹھانے والے آخر کار اپنی قربانیوں سے دینِ حق کو قائم کر دیں تو وہ آکر کہیں: اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ، یعنی ہم تو تمھاری ہی جماعت کے آدمی ہیں،لائو اب ہمارا حصّہ دو۔

شیئر کریں