Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

جہاد

برادرانِ اسلام!پچھلے خطبوں میں بار بار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز،روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیںاللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے،اور اسلام کا رُکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے،بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔اب چونکہ میں اس تربیت اور اس تیاری کے ڈھنگ کو کافی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں،اس لیے وقت آگیا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ وہ مقصد کیا ہے جس کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔
اسلام کا مقصودِحقیقی
مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹا کر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے،اور نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔لیکن چونکہ آپ لوگ مدّتہائے دراز سے اس مقصد کو اور اس کام کو بھول چکے ہیں اور ساری عبادتیں آپ کے لیے محض تصوّف بن کر رہ گئی ہیں،اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ذرا سے فقرے میں جو مطلب میں نے ادا کیا ہے اسے آپ ایک معمے سے زیادہ کچھ نہ سمجھے ہوں گے۔اچھا تو آئیے!اب میں آپ کے سامنے اس مقصد کی تشریح کروں۔
خرابیوں کی اصل جڑ ___ حکومت کی خرابی
دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔قانون حکومت بناتی ہے۔انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔پولیس اورفوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے۔لہٰذاجو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے، یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے،کیونکہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ زنا دھڑلے سے ہو رہا ہے اور علانیہ کوٹھوں پر یہ کاروبار جاری ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت کے اختیارات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، ان کی نگاہ میں زنا کوئی جرم نہیں ہے۔وہ خود اس کام کو کرتے ہیں اوردوسروں کو کرنے دیتے ہیں،ورنہ وہ اسے بند کرنا چاہیں تو یہ کام اس دھڑلّے سے نہیں چل سکتا۔آپ دیکھتے ہیں کہ سود خواری کا بازار خوب گرم ہو رہا ہے اور مال دار لوگ غریبوں کا خون چوسے چلے جا تے ہیں۔یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ حکومت خود سود کھاتی ہے اور کھانے والوںکو مدد دیتی ہے۔اس کی عدالتیں سود خواروں کو ڈگریاں دیتی ہیں اور اس کی حمایت ہی کے بل پر یہ بڑے بڑے ساہوکارے اور بینک چل رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں بے حیائی اور بداخلاقی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔یہ کس لیے؟ محض اس لیے کہ حکومت نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا ہی انتظام کیا ہے اور اس کو اخلاق اور انسانیت کے وہی نمونے پسند ہیں جو آپ کو نظر آرہے ہیں۔کسی دوسرے طرز کی تعلیم و تربیت سے آپ کسی اور نمونے کے انسان تیار کرنا چاہیں تو ذرائع کہاں سے لائیں گے؟ اور تھوڑے بہت تیار کر بھی دیں تو وہ کھپیں گے کہاں؟رزق کے دروازے اور کھپت کے میدان تو سارے کے سارے بگڑی ہوئی حکومت کے قبضے میں ہیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے حد و حساب خون ریزی ہورہی ہے۔انسان کا علم اس کی تباہی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔انسان کی محنت کے پھل آگ کی نذرکیے جارہے ہیں اور بیش قیمت جانیں مٹی کے ٹھیکروں سے بھی زیادہ بے دردی کے ساتھ ضائع کی جارہی ہیں۔یہ کس وجہ سے؟
صرف اس وجہ سے کہ آدم کی اولاد میں جو لوگ سب سے زیادہ شریر اور بدنفس تھے وہ دنیا کی قوموں کے رہنما اور اقتدار کی باگوں کے مالک ہیں۔قوت اُن کے ہاتھ میں ہے،اس لیے وہ دنیا کو جدھر چلا رہے ہیں اُسی طرف دنیا چل رہی ہے۔ علم، دولت، محنت، جان، ہر چیزکا جو مَصرف انھوں نے تجویز کیا ہے اسی میں ہر چیز صَرف ہو رہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف ظلم ہو رہا ہے،کمزور کے لیے کہیں انصاف نہیں،غریب کی زندگی دشوار ہے ، عدالتیںبنئے کی دوکان بنی ہوئی ہیں جہاں سے صرف روپے کے عوض ہی انصاف خریدا جاسکتا ہے۔ لوگوں سے بے حساب ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور افسروں کی شاہانہ تنخواہوں پر،بڑی بڑی عمارتوں پر،لڑائی کے گولہ بارود پر اور ایسی ہی دوسری فضول خرچیوں پر اڑا دیے جاتے ہیں۔ساہوکار،زمین دار،راجہ اور رئیس، خطاب یافتہ اور خطاب کے امیدوار عمائدین،گدی نشین پیر اور مہنت،سینما کمپنیوں کے مالک،شراب کے تاجر،فحش کتابیں اور رسالے شائع کرنے والے،جوئے کا کاروبار چلانے والے اور ایسے ہی بہت سے لوگ خلقِ خدا کی جان، مال، عزّت، اخلاق،ہر چیز کو تباہ کر رہے ہیں اور کوئی اُن کو روکنے والا نہیں۔یہ سب کیوں ہورہا ہے؟صرف اس لیے کہ حکومت کی کل بگڑی ہوئی ہے۔طاقت جن ہاتھوں میں ہے،وہ خراب ہیں۔وہ خود بھی ظلم کرتے ہیں اور ظالموں کا ساتھ بھی دیتے ہیں،اور جو ظلم بھی ہوتا ہے اس وجہ سے ہوتاہے کہ وہ اس کے ہونے کے خواہش مند یا کم از کم روا دار ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہو گی کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا،اخلاق کا بگڑنا،انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صَرف ہونا،کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے بُرے طور طریق کا رواج پانا، ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا،یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انھی کے تصرّف میں ہو گا تو وہ نہ صرف خود بگاڑکو پھیلائیں گے، بلکہ بگاڑ کی ہر صورت اُن کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیں گے،کسی چیز کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔
اصلاح کے لیے پہلا قدم ___ اصلاحِ حکومت
یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہو گئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچا کر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو درُست کیا جائے۔معمولی عقل کاآدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو،وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے زنا کا بند ہونا محال ہے،لیکن اگرحکومت کے اختیارات پر قبضہ کر کے زبردستی زنا کو بند کر دیا جائے تو لوگ خود بخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کر لیں گے۔شراب،جوا،سُود،رشوت،فحش تماشے،بے حیائی کے لباس، بداخلاق بنانے والی تعلیم، اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگرآپ وعظوں سے دور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے،البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دُور کی جا سکتی ہیں۔جو لوگ خلقِ خدا کو لُوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اُن کو آپ محض پندو نصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھولیں تویہ کسی طرح ممکن نہیں۔ہاں، اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزوراُن کی شرارتوں کا خاتمہ کر دیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہو سکتا ہے۔
اگر آپ چاہیں کہ بندگانِ خدا کی محنت،دولت،ذہانت و قابلیّت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صَرف ہو، اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو،اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ ہو ،انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے،دبے اور گرے ہوئے انسان اٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزّت،امن،خوش حالی اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں،تو محض تبلیغ و تلقین کے زورسے یہ کام نہیں ہو سکتا،البتہ حکومت کا زور آپ کے پاس ہو تو یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔اسے اٹھنا چاہیے اور غلط اُصول کی حکومت کا خاتمہ کرکے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے۔
حکومت کی خرابی کی بنیاد___ انسان پر انسان کی حکمرانی
یہ نکتہ سمجھ لینے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھیے۔آپ کو یہ تو معلوم ہو گیا کہ بندگانِ خداکی زندگی میں جو خرابیاں پھیلتی ہیں اُن کی جڑ حکومت کی خرابی ہے،اوراصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس جڑ کی اصلاح کی جائے، مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود حکومت کی خرابی کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس خرابی کی جڑ کہاں ہے؟ اور اس میں کون سی بنیادی اصلاح کی جائے کہ وہ برائیاں پیدا نہ ہوں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خرابی کی جڑ دراصل انسان پر انسان کی حکومت ہے اور اصلاح کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسان پر خدا کی حکومت ہو۔اتنے بڑے سوال کا اتنا مختصر سا جواب سُن کر آپ تعجب نہ کریں،اس سوال کی تحقیق میں جتنا کھوج آپ لگائیں گے، یہی جواب آپ کو ملے گا۔
ذرا غور تو کیجیے،یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ خدا کی بنائی ہوئی ہے یا کسی اور کی؟یہ انسان جو زمین پر بستے ہیں، ان کو خدا نے پیدا کیا ہے یا کسی اور نے؟یہ بے شمار اسبابِ زندگی جن کے بل پر سب انسان جی رہے ہیں، انھیں خدا نے مہیّا کیا ہے یا کسی اور نے؟
اگر ان سب سوالات کا جواب یہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ زمین اور انسان اور یہ تمام سامان خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں،تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ملک خدا کا ہے،دولت خدا کی ہے اور رعیّت بھی خداکی ہے۔پھر جب معاملہ یہ ہے تو آخر کوئی اس کا حق دار کیسے ہوگیا کہ خدا کی رعیت پر خدا کے ملک میں اپنا حکم چلائے؟آخر یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ خدا کی رعیت پر خدا کے سوا کسی دوسرے کا قانون یا خود رعیّت کا اپنا بنایا ہوا قانون جاری ہو؟ ملک کسی کا ہو اور حکم دوسرے کا چلے۔ملکیّت کسی کی ہو، اور مالک کوئی دوسرا بن جائے،رعیّت کسی کی ہو،اور اس پر فرماں روائی دوسرا کرے۔یہ بات آپ کی عقل کیسے قبول کر سکتی ہے؟ایسا ہونا تو صریح حق کے خلاف ہے،اور چونکہ یہ حق کے خلاف ہے اس لیے جہاں کہیں اورجب کبھی ایسا ہوتا ہے نتیجہ بُرا ہی نکلتاہے۔جن انسانوں کے ہاتھ میں قانون بنانے اور حکم چلانے کے اختیارات آتے ہیں وہ کچھ تو اپنی جہالت کی وجہ سے مجبوراً غلطیاں کرتے ہیں،اورکچھ اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے قصداًظلم اور بے انصافی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔کیونکہ اوّل تو ان کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے صحیح قاعدے اور قانون بنا سکیں، اور پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ خدا کے خوف اور خدا کے سامنے جواب دہی سے غافل ہو کر لامحالہ وہ شتر بے مہار بن جاتے ہیں۔ذرا سی عقل اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جو انسان خدا سے بے خوف ہو،جسے یہ فکر ہو ہی نہیں کہ کسی کو حساب دینا ہے،جو اپنی جگہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اوپر کوئی نہیں جو مجھ سے پوچھ گچھ کرنے والا ہو،وہ طاقت اور اختیارات پا کر شتر بے مہار نہ بنے گا تو اور کیا بنے گا؟
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں جب لوگوں کے رزق کی کنجیاں ہوں،جب لوگوں کی جانیں اور ان کے مال اس کی مٹھی میں ہوں،جب ہزاروں لاکھوں سراس کے حکم کے آگے جھک رہے ہوں،تو کیا وہ راستی اور انصاف پر قائم رہ جائے گا؟کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ خزانوں کا امین ثابت ہو گا؟ کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ حق مارنے،حرام کھانے اور بندگانِ خدا کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے سے باز رہے گا؟ کیا آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایسا شخص خود بھی سیدھے راستے پر چلے اور دوسروں کو بھی سیدھا چلائے؟ہرگز نہیں،ہرگز ہرگز نہیں، ایسا ہونا عقل کے خلاف ہے۔ہزارہا برس کا تجربہ اس کے خلاف شہادت دیتا ہے۔آج اپنی آنکھوں سے آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ خدا سے بے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے غافل ہیں وہ اختیارات پا کر کس قدر ظالم،خائن اور بدراہ ہوجاتے ہیں۔
اصلاح کی بنیاد___انسان پر خداکی حکومت ہو
لہٰذا حکومت کی بنیاد میں جس اصلاح کی ضرورت ہے،وہ یہ ہے کہ انسان پر انسان کی حکومت نہ ہو، بلکہ خدا کی حکومت ہو۔اس حکومت کو چلانے والے خود مالک الملک نہ بنیں، بلکہ خدا کو بادشاہ تسلیم کر کے اس کے نائب اور امین کی حیثیت سے کام کریں، اور یہ سمجھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں کہ آخر کار اس امانت کا حساب اس بادشاہ کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے۔قانون اس خدا کی ہدایت پر مبنی ہو جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے اور دانائی کا سرچشمہ ہے۔اس قانون کو بدلنے، یا اس میں ترمیم و تنسیخ کرنے کے اختیارات کسی کو نہ ہوں،تاکہ وہ انسانوں کی جہالت یا خود غرضی اور ناروا خواہشات کے دخل پا جانے سے بگڑ نہ جائے۔
یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں، بلکہ واقعی بادشاہ)تسلیم کرلیں اوراس قانون پر جو خدانے اپنے نبیa کے ذریعے سے بھیجا ہے،ایمان لے آئیں،اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اٹھیں۔ اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہو گئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اوراس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہو جاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو،جس سر زمین میںبھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اٹھو،حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو،نا خدا ترس اور شتربے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو،اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق،آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے،حکومت کے معاملات انجام دو۔اسی کوشش اوراسی جدوجہد کا نام ’’جہاد‘‘ ہے۔
حکومت ایک کٹھن راستہ
لیکن حکومت اور فرماں روائی جیسی بدبلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے ۔اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں۔خواہشاتِ نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلقِ خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے۔حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ آجانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندۂ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔پھر بھلا فائدہ ہی کیا ہوا اگر فرعون کو ہٹا کر تم خود فرعون بن گئے؟لہٰذا اس شدید آزمائش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو،اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پا کر تم اپنی خواہشات کی پَیروی نہ کرو، بلکہ خدا کے قانون کی پَیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو،تمھیں اس کا مستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے،اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
عبادات___ایک تربیتی کورس ہیں
یہ نماز اورروزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں جس طر ح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج،پولیس اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر اُن سے کام لیتی ہیں،اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام)بھی ان تمام آدمیوں کو،جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں،پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے،پھر اُن سے جہاد اورحکومت ِ اِلٰہی کی خدمت لینا چاہتاہے۔فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جوکام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ،اس لیے وہ انھیں صرف کاردَاں بنانے کی کوشش کرتی ہیں،خواہ وہ کیسے ہی زانی،شرابی،بے ایمان اور بدنفس ہوں۔مگر دینِ اِلٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کا سارا ہے ہی اخلاقی کام،اس لیے وہ انھیں کاردَاں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔
وہ ان میں اتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کر کے دکھا سکیں۔وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے،بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔وہ فتح پائیں تو متکبرو سرکش نہ ہوں، بلکہ ان کے سرخدا کے آگے جُھکے ہوئے رہیں۔وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی، یا اپنے خاندان والوں، یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں،بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچّے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں ہر حال میں دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے ،اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتاہے، تب وہ ان سے کہتاہے کہ ہاں،اب تم روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو،لہٰذا آگے بڑھو،لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو، اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (آل عمران 3:110)
دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

خدا شناس حکومت کی برکات
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں فوج،پولیس،عدالت،جیل،تحصیل داری،ٹیکس کلکٹری اور تمام دوسرے سرکاری کام ایسے اہل کاروں اور عہدے داروں کے ہاتھ میں ہوں جو سب کے سب خدا سے ڈرنے والے اور آخرت کی جواب دہی کا خیال رکھنے والے ہوں، اور جہاں حکومت کے سارے قاعدے اور سارے ضابطے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر قائم ہوں،جس میں بے انصافی اور نادانی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے،اور جہاں بدی و بدکاری کی ہر صورت کا بروقت تدارک کر دیا جائے اور نیکی و نیکوکاری کی ہر بات کو حکومت اپنے رویے اوراپنی طاقت سے پروان چڑھانے کے لیے مستعدرہے،ایسی جگہ خلقِ خدا کی بہتری کا کیا حال ہوگا۔
پھر آپ ذرا غور کریں تو یہ بات بھی آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ ایسی حکومت جب کچھ مدّت تک کام کر کے لوگوں کی بگڑی ہوئی عادتوں کو درست کر دے گی،جب وہ حرام خوری، ظلم، بدکاری، بے حیائی اور بداخلاقی کے سارے رستے بند کر دے گی،جب وہ غلط قسم کی تعلیم و تربیت کا انسداد کر کے صحیح تعلیم و تربیت سے لوگوںکے خیالات ٹھیک کر دے گی،اور جب اس کے ماتحت عدل و انصاف،امن و امان اور نیک اطواری و خوش اخلاقی کی پاک صاف فضا میں لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقع ملے گا،تو وہ آنکھیں جو بدکار اور ناخدا ترس لوگوں کی سرداری میں مدّت ہائے درازتک رہنے کی وجہ سے اندھی ہو گئی تھیں،رفتہ رفتہ خود ہی حق کو دیکھنے اورپہچاننے کے قابل ہو جائیں گی۔وہ دل جن پر صدیوں تک بداخلاقیوں کے درمیان گھرے رہنے کی وجہ سے زنگ کی تہیں چڑھ گئی تھیں،آہستہ آہستہ خود ہی آئینے کی طرح صاف ہوتے چلے جائیں گے اوران میں سچائی کا عکس قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔
اس وقت لوگوںکے لیے اس سیدھی سی بات کا سمجھنا اور مان لینا کچھ بھی مشکل نہ رہے گا کہ حقیقت میں اللہ ہی اُن کا خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اس کا مستحق نہیں کہ وہ اس کی بندگی کریں اور یہ کہ واقعی وہ پیغمبر سچے تھے جن کے ذریعے سے ایسے صحیح قوانین ہم کو ملے۔آج جس بات کو لوگوں کے دماغوں میں اُتارنا سخت مشکل نظر آتا ہے،اس وقت وہ بات خود دماغوں میں اُترنے لگے گی۔آج تقریروں اور کتابو ں کے ذریعے سے جس بات کو نہیں سمجھایا جا سکتا اُس وقت وہ ایسی آسانی سے سمجھ میں آئے گی کہ گویا اس میں کوئی پیچیدگی تھی ہی نہیں۔جو لوگ اپنی آنکھوں سے اس فرق کو دیکھ لیں گے کہ انسان کے خود گھڑے ہوئے طریقوں پر دنیا کا کاروبار چلتا ہے تو کیا حال ہوتا ہے، اور خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر اسی دنیا کے کام چلائے جاتے ہیں تب کیا کیفیت ہوتی ہے۔اُن کے لیے خدا کی توحید اور اس کے پیغمبر کی صداقت پر ایمان لانا آسان اور ایمان نہ لانا مشکل ہو جائے گا، بالکل اُسی طرح جیسے پھول اور کانٹوں کا فرق محسوس کر لینے کے بعد پھول کا انتخاب کرنا آسان اور کانٹوں کا چننا مشکل ہو جاتا ہے۔اُس وقت اسلام کی سچائی سے انکار کرنے اور کفر و شرک پر اڑے رہنے کے لیے بہت ہی زیادہ ہٹ دھرمی کی ضرورت ہو گی اور مشکل سے ہزار میں دس پانچ ہی آدمی ایسے نکلیں گے،جن میں زیادہ ہٹ دھرمی موجود ہو۔
بھائیو!اب مجھے امید ہے کہ تم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ یہ نماز اور روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ کس غرض کے لیے ہیں۔تم اب تک یہ سمجھے رہے ہو، اور مدّتوں سے تم کواس غلط فہمی میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ یہ عبادتیں محض پوجا پاٹ قسم کی چیزیں ہیں۔ تمھیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ یہ ایک بڑی خدمت کی تیاری کے لیے ہیں۔اسی وجہ سے تم بغیر کسی مقصدکے ان رسموں کو ادا کرتے رہے اوراس کام کے لیے کبھی تیار ہونے کا خیال تک تمھارے دلوں میں نہ آیا جس کے لیے دراصل انھیں مقرر کیا گیا تھا،مگر اب میں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اورجس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔اِن بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جا کر تم خود دیکھ لو گے کہ انھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا!
٭…٭…٭

شیئر کریں