اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ نبیﷺ اپنی احادیث کی نشرواشاعت کے لیے تاکید فرماتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ آپؐ نے ان کی حفاظت اور ان میں جھوٹ کی آمیزش سے احتراز کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
۱۔ عبداللّٰہ بن عمرو بن عاصؓ، ابوہریرہؓ، حضرت زبیرؓ، اور حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا مَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ‘ مِنَ النَّارِ(بخاری وترمذی) ’’جو شخص میرا نام لے کر قصدًا جھوٹی بات میری طرف منسوب کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
۲۔ ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: حَدِّثُوْا عَنِّیْ وَلَاَ حَرَجَ وَمَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ‘ مِنَ النَّارِ (مسلم)’’میری باتیں روایت کرو، اس میں کوئی حرج نہیں، مگر جو میری طرف جان بوجھ کر جھوٹی بات منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے گا‘‘
۳۔ ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ اور جابرؓ بن عبداللّٰہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: اِتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّیْ اِلاَّ مَا عَلِمْتُمْ فَمَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ‘ مِنَ النَّارِ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) میری طرف سے کوئی بات بیان نہ کرو جب تک کہ تمھیں یہ علم نہ ہو کہ میں نے وہ کہی ہے، کیوں کہ جو میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے گا۔
۴۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: لَا تَکْذِبُوْا عَلَیَّ فَاِنَّہ‘ مَنْ کَذِبَ عَلَیَّ فَلْیِلَجِ النَّارَ۔(بخاری) ’’میرا نام لے کرجھوٹ نہ بولو، کیوں کہ جو شخص میرا نام لے کر جھوٹ بولے وہ آگ میں داخل ہو گا۔‘‘
۵۔ حضرت سلمہؓ کہتے ہیں سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَن یَّقُلْ عَلَیَّ مَالَمْ اَقُلْ فَلْیَتَبَوَّ أْ مَقْعَدَہ‘ مِنَ النَّارِ(بخاری)’’میں نے حضورﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص میرا نام لے کر وہ بات کہے جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘
کیا یہ بار بار کی سخت وعید یہی ظاہر کرتی ہے کہ حضورﷺ کے ارشادات کی دین میں کوئی اہمیت نہ تھی؟ اگر آپ کی سُنّت کی کوئی قانونی حیثیت دین میں نہ ہوتی اور اس سے احکامِ دین کے متأثر ہونے کا خطر ہ نہ ہوتا تو کیا ضرورت پڑی تھی کہ جہنم کی وعید سنا سنا کر لوگوں کو جھوٹی حدیث روایت کرنے سے روکا جاتا؟ بادشاہوں اور رئیسوں کی طرف تاریخوں میں بہت سی غلط باتیں منسوب ہوجاتی ہیں، ان سے آخر دین پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اگر حضورﷺ کی سُنّت کی بھی یہی حیثیت ہے تو آپ کی تاریخ کو مسخ کر دینے کی یہ سزا کیوں ہوکہ آدمی کو واصل جہنم کر دیا جائے۔